
دریائے ستلج میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند
لاہور: دریائے ستلج کے بہاؤ میں مسلسل اضافے کے بعد سیلابی صورتحال کا خطرہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ حکام کے مطابق اب تک قریبی علاقوں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد محفوظ مقامات پر منتقل کر دیے گئے ہیں۔
ترجمان این ڈی ایم اے نے بتایا کہ دریائے ستلج میں پانی کی سطح بڑھنے پر پی ڈی ایم اے پنجاب کو ہنگامی الرٹ جاری کیا گیا، جس کے بعد متاثرہ اضلاع میں بڑے پیمانے پر انخلا کی کارروائیاں شروع کی گئیں۔
گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کا بہاؤ 1,82,188 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
بھوکاں پتن پل اور بابا فرید پل پر بھی پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ پانی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
ہزاروں ایکڑ فصلیں اور مکانات متاثر
تحصیل منچن آباد، بہاولنگر اور چشتیاں میں سیلابی ریلوں نے کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیا، کئی مکانات اور سرکاری اسکول بھی زیر آب آ گئے۔
ریسکیو ٹیموں نے سیکڑوں افراد اور ان کے مویشیوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔
بہاولپور کی تحصیل خیرپور ٹامیوالی کے بیٹ کے علاقوں میں پانی تیزی سے پھیل رہا ہے۔
شکرگڑھ کے علاقے کوٹ نیناں میں دریائے راوی میں اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا جہاں ایک لاکھ کیوسک کا ریلا گزر رہا ہے۔
جسڑ کے مقام پر پانی کی مقدار 1,12,000 کیوسک تک پہنچ گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بارشوں کا سلسلہ جاری رہا تو اگلے چند روز میں مزید علاقوں کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر زرعی نقصان کے ساتھ ساتھ ہزاروں مزید خاندان متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
مزید پڑھیں
خیبر پختونخوا میں سونے کے بلاکس کی نیلامی میں کھربوں کی بے ضابطگیاں، تحقیقات کا حکم
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں سونے کے بلاکس کی نیلامی کے دوران سامنے آنے والی مبینہ بے ضابطگیوں پر تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پلاسرسونے کے بلاکس کی نیلامی میں کھربوں روپے کے مالی نقصان اور بدعنوانی کے خدشات ظاہر کیے گئے جس کے بعد وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں اس پورے عمل کی جامع انکوائری کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں واضح کیا گیا کہ دریائے کابل اور دریائے سندھ کے کنارے ہونے والی کان کنی کے تمام مراحل کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا تاکہ اصل حقائق سامنے لائے جا سکیں۔
کابینہ اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی جائے گی۔ یہ کمیٹی مشیر انسدادِ بدعنوانی کی سربراہی میں کام کرے گی جبکہ چیئرمین صوبائی انسپکشن ٹیم، ایڈووکیٹ جنرل اور ریٹائرڈ انجینئر فضل رازق اس کے اراکین ہوں گے۔ کمیٹی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پندرہ روز کے اندر اپنی رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کرے تاکہ ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔




