
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے ملک گیر احتجاج منگل کے روز ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا۔ یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب عمران خان کی مسلسل قید کے خلاف پارٹی قیادت نے مختلف شہروں میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا۔
پشاور میں بڑی ریلی اور کارکنان کا قافلہ روکنا
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں پشاور میں عمران خان کی رہائی کے لیے ملک گیر احتجاج کیے بڑی ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے دوران کارکنان نے رنگ روڈ پر وزیراعلیٰ کے قافلے کو روک دیا اور کنٹینر کے سامنے بیٹھ کر "ڈی چوک جانے” کے نعرے لگائے۔ علی امین گنڈاپور کنٹینر پر چڑھ کر کارکنان سے خطاب کرتے رہے۔ صورتحال اس وقت قابو میں آئی جب پارٹی رہنماؤں اور ٹریفک پولیس نے کارکنوں کو کنٹینر کے سامنے سے ہٹایا اور قافلہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا۔
اڈیالہ جیل کے اطراف سکیورٹی سخت
سربراہ تحریک تحفظ آئین پاکستان محمود خان اچکزئی، قانونی ماہر سلمان اکرم راجہ اور عمران خان کی بہنوں کو اڈیالہ جیل جانے سے روک دیا گیا۔ پولیس کی بھاری نفری جیل کے باہر تعینات رہی جبکہ سی پی او راولپنڈی خالد ہمدانی نے سکیورٹی انتظامات کا خود جائزہ لیا۔ ذرائع کے مطابق ممکنہ ہنگامہ آرائی کے پیش نظر جیل کے اطراف اضافی رکاوٹیں لگائی گئی ہیں۔
لاہور میں یوم استحصال کشمیر کے ساتھ مشترکہ ریلی
لاہور میں پرویز الہٰی کی ہدایت پر بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی اور یوم استحصال کشمیر کے موقع پر مشترکہ ریلی نکالی گئی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پولیس نے احتجاج روکنے کے لیے 6 اپوزیشن ارکان پنجاب اسمبلی سمیت 300 کارکنان کو گرفتار کر لیا ہے۔ پارٹی صدر امتیاز شیخ کے مطابق، لاہور کے تمام حلقوں میں احتجاج کی تیاریاں مکمل تھیں لیکن پولیس کی کارروائیوں نے کئی مقامات پر مظاہروں کو محدود کر دیا۔
کراچی میں تصادم اور گرفتاریاں
کراچی میں یونیورسٹی روڈ پر حسن اسکوائر کے قریب پی ٹی آئی کے کارکنان نے احتجاج کیا۔ پولیس نے سڑک کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا۔ مشتعل کارکنوں کی جانب سے پتھراؤ کے بعد پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور کئی مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ شہریوں کو ٹریفک کی بندش اور بدامنی کا سامنا کرنا پڑا۔
دیگر شہروں میں مظاہرے
حیدرآباد، لطیف آباد، لاڑکانہ، ٹھٹہ اور نوابشاہ میں پی ٹی آئی کے کارکنان نے احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ جھنگ اور شکر گڑھ میں بھی مختلف مقامات پر احتجاج کیا گیا جبکہ ملتان میں پارٹی قیادت نے پولیس پر الزام عائد کیا کہ وہ متعدد کارکنان کو غیر قانونی طور پر گرفتار کر رہی ہے۔
بلوچستان میں چمن میں پشتونخوامیپ اور پی ٹی آئی کے کارکنان نے مشترکہ ریلی نکالی جبکہ پشین، قلعہ عبداللہ اور دیگر علاقوں میں بھی مظاہرے کیے گئے۔ خیبر پختونخوا کے کئی شہروں بشمول میرعلی، ہنگو، مہمند، مالاکنڈ، صوابی اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں بھی احتجاجی جلوس نکالے گئے۔
پی ٹی آئی کا مؤقف اور حکومتی ردعمل
پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا ہے کہ عمران خان کی فوری رہائی تک احتجاجی تحریک جاری رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن کارکنان کا جوش اور ولولہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عمران خان آج بھی عوام کے دلوں میں بستے ہیں۔
حکومتی ذرائع کا مؤقف ہے کہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے گرفتاریاں کی گئی ہیں اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ملک بھر میں ہونے والے ان مظاہروں نے سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل احتجاجی کالز اور گرفتاریوں کے الزامات سیاسی ماحول کو مزید گرما رہے ہیں۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے مطالبے پر پارٹی ملک گیر سطح پر اپنی تحریک کو تیز کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے ممکنہ احتجاج کے پیش نظر پنڈی میں دفعہ 144 نافذ، اڈیالہ جیل کے باہر اضافی سکیورٹی طلب




