
بھارت نے امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، روس سے تیل کی خریداری میں کمی پر رضامندی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں بھارت کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ روس سے تیل کی خریداری نہیں روکتا تو اس پر اضافی ٹیرف عائد کیے جائیں گے۔ اس انتباہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے امریکا نے بھارت پر 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کر دیا، جس کے بعد مجموعی طور پر بھارت پر امریکی ٹیرف کی شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
بھارت کا دباؤ میں آ کر روسی تیل سے پیچھے ہٹنے کا عندیہ
امریکی اقدامات کے بعد بھارت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ روس سے تیل کی خریداری میں کمی لانے پر تیار ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بھارت نے امریکا کو اشارہ دیا ہے کہ وہ روسی تیل کی درآمدات میں بتدریج کمی کرے گا تاکہ دو طرفہ تجارتی تعلقات کو مزید نقصان نہ پہنچے۔
بھارت کی معیشت تیل کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، اور روس سے ملنے والا سستا تیل نئی دہلی کے لیے معاشی طور پر سودمند ثابت ہوا ہے۔ تاہم، امریکا جیسے طاقتور اتحادی کی ناراضگی بھارت کے لیے ایک بڑا سفارتی چیلنج ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ امریکا اور روس دونوں کے ساتھ توازن برقرار رکھے، مگر حالیہ پیش رفت سے واضح ہو رہا ہے کہ ٹرمپ کے دباؤ کے آگے بھارت کو جھکنا پڑا ہے۔
تجارتی مذاکرات بند، امریکا کا سخت مؤقف
امریکی صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا کہ جب تک بھارت روس سے تیل خریدنے کا سلسلہ بند نہیں کرتا، امریکا بھارت کے ساتھ کسی قسم کے تجارتی مذاکرات نہیں کرے گا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ہم کسی ایسے ملک کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے جو ہمارے مخالفین سے کاروبار جاری رکھے”۔
پاکستان اور خطے کے لیے اثرات
یہ صورت حال نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے کے لیے اہم ہے۔ روس سے سستا تیل حاصل کرنے کا رجحان پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے، مگر بھارت کی پسپائی سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی پابندیوں سے بچنا ممکن نہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک موقع ہو سکتا ہے کہ وہ متوازن خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کے درمیان بہتر حکمت عملی اپنائے۔
امریکا کے ٹیرف دباؤ کے بعد بھارت کی پالیسی میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔ روس سے تیل کی درآمدات کم کرنے کا فیصلہ بظاہر بھارت کی خودمختار پالیسی کے برعکس ہے، مگر عالمی معاشی حقیقتوں نے بھارت کو امریکی شرائط ماننے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے دور رس اثرات بھارت کی توانائی پالیسی، تجارتی منصوبہ بندی اور سفارتی حکمت عملی پر مرتب ہوں گے۔




