
صدر مملکت نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2025 کی منظوری دے دی
صدر مملکت آصف علی زرداری نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2025 پر دستخط کر دیے جس کے بعد یہ قانون ملک بھر میں نافذ العمل ہو گیا ہے۔ ایوانِ صدر سے جاری اعلامیہ کے مطابق یہ نیا قانون سکیورٹی اداروں کو دہشت گردی کی روک تھام میں مزید مؤثر بنانے کے ساتھ ساتھ عدالتی نگرانی اور شفافیت کو بھی یقینی بنائے گا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قانون میں ایسے اقدامات شامل کیے گئے ہیں جو احتساب اور عدالتی نگرانی کو یقینی بنائیں گے۔ اس کے علاوہ تین سال کا سن سیٹ کلاز شامل کیا گیا ہے تاکہ اس قانون کا اطلاق وقتی طور پر محدود رہے اور وقتاً فوقتاً اس کا ازسرِنو جائزہ لیا جا سکے
بل کے مطابق مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو تین ماہ تک حفاظتی حراست میں رکھ سکیں۔ تاہم اس حراست کے لیے ٹھوس شواہد اور معقول جواز ضروری قرار دیا گیا ہے۔
بل کے تحت اگر کسی شخص پر اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ یا دہشت گردی سے متعلق دیگر جرائم کا الزام ثابت ہو تو اس کی حراست کی مدت آئین کے آرٹیکل 10 کے تحت تین ماہ سے بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) تشکیل دی جائے گی۔
ایوان صدر کے مطابق:
"انسداد دہشت گردی کا نیا قانون پاکستان کو درپیش سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کے تحت شفافیت، احتساب، عدالتی نگرانی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔”
جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ نے اس قانون کی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں سے منظوری کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا:
"یہ اقدام آئین اور جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔”
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قانون قومی سلامتی کے لیے ناگزیر تھا اور اس کے بغیر دہشت گردی جیسے سنگین خطرے سے مؤثر انداز میں نمٹا نہیں جا سکتا تھا۔
یہ قانون تین سال کے لیے نافذ العمل ہوگا، اس کے بعد اس پر نظرثانی کی جائے گی تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ اس کے نتائج کس حد تک مؤثر رہے۔
اہم نکات ایک نظر میں
ٹھوس شواہد کے بغیر گرفتاری ممکن نہیں۔
حراست کی مدت تین ماہ، توسیع عدالت کے ذریعے۔
تین سال کا سن سیٹ کلاز شامل۔
عدالتی نگرانی اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل۔
انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2025 کی منظوری پاکستان کے سکیورٹی نظام کے لیے ایک اہم سنگِ میل قرار دی جا رہی ہے۔ ایک طرف یہ قانون سکیورٹی اداروں کو مضبوط بناتا ہے جبکہ دوسری طرف اس میں عدالتی نگرانی اور شفافیت کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس پر اپوزیشن اور شہری حلقوں کی جانب سے تحفظات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں




