شاعری

حسرت قربانی

ڈاکٹر سعید اقبال سعدی

میں نے بھی اس عید پہ قربانی کرنے کی ٹھانی
سوچا بکرا عید پہ دے دوں بکرے کی قربانی
جیب میں ڈال کے سات ہزار میں پہنچا بکرامنڈی
ہر بیوپاری ہر گاہک سے مار رہا تھا ڈنڈی

جس بکرے کا ریٹ بھی پوچھا سُن کر جی گھبرایا
تیس ہزار کا بکرا سُن کر مجھ کو چکر آیا
میں نے کہا کہ میرے پاس ہیں بس اتنے ہی پیسے
وہ بولا تم بکرا منڈی میں آئے ہو کیسے

آپ کے حق میں بہتر ہے باہر کا رستہ پکڑیں
بکرے نے یہ ریٹ سُنا تو مارے گا وہ ٹکریں
سات ہزار میں مل سکتا ہے بکرے کا اک ساشے
ویٹ ہو جس کا سات کلو، چھ تولے اور دو ماشے

یا پھر مل سکتا ہے تم کو چھوٹا ٹیڈی بکرا
ان پیسوں میں آ سکتا ہے ممی ڈیڈی بکرا
میں نے پوچھا اس بکرے کی قربانی کا جائز
بولا ”پاہ جی، دوندا ہے یہ اس رتبے پر فائض“

دے کر سات ہزار کی قیمت بکرا لے کر آیا
گھر میں لا کر سب سے پہلے بیگم کو دکھلایا
بکرا دیکھ کر بیگم نے غصے میں مجھ کو دیکھا
غصے میں تو لگتی ہے وہ مجھ کو بالکل ”ریکھا“

بولا ایسا اعلیٰ بکرا لائے ہو کس جد کا
قربانی کرنی ہے تم کو یا دینا ہے صدقہ
جاﺅ جا کر ایسا بکرا واپس کر کے آﺅ
اِس بکرے سے بہتر ہے گائے میں حصہ پاﺅ

کھا کر بیگم کی جھڑکیں میں واپس منڈی آیا
چار ہزار میں سات کے بدلے بکرے کو لوٹایا
گائے کا حصہ بھی تھا میری اوقات سے باہر
کر نہ پایا قربانی اس بار بھی مفلس شاعر

تیس لاکھ کا بکرا ہو اور دو دو لاکھ کی گائے
ایسے میں مجھ جیسا کیسے بکرا عید منائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button