آئیے ایک غیر سیاسی عینک پہن کر جانتے ہیں کہ Hero-worship یا Cult worship کیا ہےاور یہ ہماری زندگیوں پر کیسےاثر انداز ہو رہی ہے۔ Charismatic Leader(کرشماتی یا جاذب نظرقائد)اقتدار کے کھیل کا سپر سٹار اور اپنے مداحوں کے لئےمقناطیس کی مانند ہوتا ہے…. کرشماتی قیادت اُن لوگوں کے دلوں میں بسیرا کرتی ہے،جو رہنمائی کی روشنی کو ترستےہیں۔ پاکستان بھی کرشماتی قیادت کی رغبت میں ڈوبی ہوئی سرزمین ہے۔
یونانی زبان کا یہ لفظ (کِرزمہ) یوں تو مثبت معنوں میں لیا جاتا ہے، مگر اصل میں یہ دو دھاری تلوار ہے۔ کرزمے کی جڑیں ہمارے خیالات اور عقائد میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ آج ہماری نسل بھی ایسی ہی دیوانگی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ دلکش بیانیہ کے جادو میں لوگ اپنے منتخب رہنما کو عیبوں سمیت قبول کرنے کو تیار ہیں۔ شاید اسی لیے سیاست میں ہمارا اخلاقی وجود مٹتا جا رہا ہے۔
Charismatic chain یعنی (کرشماتی زنجیر) میں پھنسے لوگ نظریات کے بجائےشخصیات کی پوجا کرنے لگتےہیں۔ اس کیفیت کوانگریزی میں Hero-worship یا Cult worship کہا گیاہے۔ معاشرے میں Generation gap ہی نہیں بڑھا Communication gap بھی اس قدر بڑھا ہے کہ لوگ اپنے من پسند سچ کو حتمی سچ سمجھنے لگے ہیں۔ بابا کارل مارکس نے ٹھیک بولا "لا شعور قوم” دشمن کی فوج ہے۔
کرشمے کا شکار ONE-TRACK MIND (یک رخی ذہن)اپنے پسندیدہ لیڈر پر بحث کرتے ہوئے اتنے غصیلے ہو جاتے ہیں کہ مخصوص نفسیاتی حالت میں اپنے خاندان اور دوستوں سے بھی لڑنے لگتے ہیں۔ انہیں”عقیدت” کی عینک سے اکثرحقیقت نظر نہیں آتی۔
خطرناک کرشمہ ایک عالمی مصیبت بن چکا ہے. خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے پیروکاروں کے درمیان کرشماتی نفسیاتی تعلق کو Dangerous Charisma نامی کتاب میں دریافت کیا جا چکا ہے۔ کرشماتی قائدین اپنے چاہنے والوں کی سوچ کے حکمران کیسے بنتے ہیں یہ جاننے کے لئے آپ کو انگریزی کی دو کتابوں مائیکل ٹی سٹیونز کی کتاب The Art of Psychological Warfare اور ڈینیل جیمز کی کتاب "ڈارک سائیکولوجی سیکرٹس”کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
اے نوجوانو!
تم پاکستان کے تاج میں جگمگانے والے قیمتی ہیرے تھے مگر (دلیل دشمن مہم) کا حصہ بن کر ایسے نشہ آور پروپیگنڈہ میں آ گئے ہو جہاں تمہارے سوچ میں محض نااُمیدی ہے۔ ابھی تمہیں پیچدہ ہوئی نئی شاطر دنیامیں رہنا سیکھنا ہے۔اندھی تقلید میں مبتلا ہو کر تم شور کی گہما گہمی میں شعور کی گہرائی کھو رہے ہو۔
ماڈرن کرشماتی لیڈرز سے تمہاری وابستگی نظریاتی نہیں نفسیاتی ہے۔یہ تم ہر گز نہیں مانو گے….. مگر تمہارا اظہارِ پسندیدگی دیوانگی کی سرحدیں چھو رہاہے۔ اس موضوع کو تحقیق کی خوردبین سے دیکھو گے تو جان پاو گے کہ تمہاری دیوانگی illusion یعنی(نظر کے دھوکہ)بھی ہو سکتی ہے۔ کرشمہ ایک جادو ہے جو ہمارا سوالیہ ذہن سولا دیتا ہے۔ آج کرشماتی ذرائع ابلاغ سےہمیں موصول ہونے والا 70فیصد سے زیادہ مواد جعلی، ترمیم شدہ یا گمراہ کن ہوتا ہے۔ پھر بھی، ہم اسے (میری وال میری مرضی) کے جھنڈے تلےبغیر تصدیق کے شیئر کرتے ہیں. نتیجتاً :-
گھر جل اٹھا ہے گھر کے چراغ سے
المیہ یہ ہے کہ نئے دور کے دانشور بھی اب دلیر نہیں رہے۔ یہ بھی کرشماتی رہنماؤں کے لیے تیار کردہ گمراہ کن عقیدت کے خلاف قلم نہیں اُٹھاتے۔ سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ونگزکی “انٹر نیٹ گردی” سے ڈرتے ہیں۔ ہائے ! اہل ہنر اور اہل غیرت کو کیا ہو گیا….؟ سب بیکار کاغذ کا ضائع شدہ سکریپ بن گئے، ایسےشور و غل میں کھو گئے جو مقصد سے زیادہ وقتی مقبولیت کے مزے مار رہا ہے۔ اس دور میں حقیقی عظمت کا اندازہ کسی کے الفاظ کی گہرائی سے نہیں بلکہ اس فریکوئنسی سے کیا جاتا ہے جس سے وہ Trending پاتاہے۔
کیا اہل ہنر کیا اہل شرف سب ٹکڑے ردی کاغذ کے
اس دور میں ہے وہ شخص بڑا جو روز خبر میں رہتا ہے
معلومات کے دور میں، جہالت ہمارا اپنا انتخاب ہے، اور اندھی عقیدت اس کا نتیجہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ جہاں لوگ کتابیں نہیں پڑھتے وہاں مکھیاں اور مچھر بھی امام بن جاتےہیں۔ کتابیں، ہی نظریاتی جنگ کا ہتھیار ہیں،جنہیں ہم اب زندگی سے دور پھینک چکے ہیں۔
پہلے سیاست ایک سنجیدہ کام تھا اب جدید “ملٹی میڈیائی سیاست” ایک نئی (انٹرٹینمنٹ انڈسٹری) بن چکی ہے۔ کرشماتی جماعتیں ٹیم ورک ،ویثرن اور کارکردگی کے بجائے اپنے حاصل شدہ سیاسی اثاثے خوف،نفرت اور عدم برداشت کے پیٹرول سے چلتی ہیں۔
ماہرین نفسیات کے خیال میں کرشمہ اُس طاقتور دوائی کے مترادف ہے، جو انتہائی ذہین اور شفاف ذہنوں میں بھی جگہ بنا لیتاہے۔ اس بارے عکس سمت پوری کہتا ہے:
یار میں اتنا بھوکا ہوں
دھوکا بھی کھا لیتا ہوں
تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ کرشمہ کے مختصر مدتی فائدے اکثر طویل مدتی نقصان دیتے ہیں۔ یہ ہمارے اندر Cult of Personality “شخصی فرقے” بنا دیتا ہے، جس کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم اپنے لیڈر کو اپنا“مقدس مرشد” تک مان لیتے ہیں- پرستار ایک سحر میں ریاست ،حکومت اور خاندان کے بارے میں اپنی بنی بنائی رائے بھی بدل لیتے ہیں۔ کرشمہ وہ دلکش وہم ہے، جو ہمیں اپنے منتخب رہنماؤں کی خامیوں اور کوتاہیوں سے اندھا کر دیتا ہے۔
عوامی سوچوں پر حکومت کرنے والےکرشماتی رہنما اکثر بیان کے جادو اور Manipulation techniques کے ذریعےمعصوم اور نیک انسانوں کی سوچ پر قبضہ کرتےہیں۔ نتیجتاً پرستار ان کی حمایت کو اپنا ایمانی اور روحانی مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ماڈرن کرشمے کی کرنیں جس معاشرہ پر پڑتی ہیں وہ اخلاقی اقدار سے بھی دستبردار ہو جاتا ہے۔
اکیسویں صدی کے سائبر سلطانوں نے اپنے خطرناک کرشمے سے لاکھوں لوگوں کے Neural pathways یوں بدلے ہیں کہ لوگ اب ان کے ہر جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں۔یہاں تک کہ لوگ ان کی بینس کے گوبر کو گاجر کا حلوہ ثابت کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے۔
سیاسی فرقہ چلانے والی “کمپنی” نئی دنیا میں ایک باقاعدہ پروڈیکشن ہاؤس اور ایونٹ منیجمنٹ کمپنی کے ماڈل پر کام کرتی ہے۔ یہ منظم ادارہ اپنے قائدین کی صرف تقریریں ہی ترتیب نہیں دیتا بلکہ اپنے معصوم مومنین کی روحوں کو موسیقی سے بھی بھرتاہے۔ نتیجتاً ماننے والے معصوموں کی سوچ پر ایک خیالی چادر ڈھانپ دی جاتی ہے۔
سیاسی فرقے سے وابستہ لوگ اپنے رہنما کو اس افسانوی مقام تک پہنچا دیتے ہیں جہاں انہیں غور کرنے اور سوال کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ایک ہی طرح کی خبریں،کہانیاں اور میوزک سن کر لوگ جہادیوں کی طرح جنونی ہو جاتے ہیں۔ ان بے چاروں سے کوئی نتیجہ خیز بحث نہیں ہو سکتی۔
پروپیگنڈہ صرف سیاسی میدانوں میں نہیں ہو رہا۔ آرٹ، موسیقی، فلموں،TikToks اور ٹیوٹرز کے ذریعے، ایک خیالی ماحول بنایا جا چکا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ موجودہ زمانے کی جنگیں زمین پر نہیں ذہنوں پر لڑی جا رہی ہیں۔
یہ مضمون کرشماتی قیادت سے نفرت کا اظہار نہیں بلکہ اس ماڈل کی پیچیدگیاں اور عصری معاشرے پر اس کے اثرات پر (دعوتِ تحقیق) دیتا ہے۔ آج جیسے ہم فکری طور پر تقسیم ہیں بالکل اسی ڈیزائن پر ماضی میں چند عرب ممالک، عراق، سوڈان اور سری لنکا بھی شکنجے میں جکڑے گئے تھے۔
خطرناک کرشمے کی شناخت کے لیے چند چوکس انسانوں کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہو، کیونکہ خطرناک کرشمے کا نفسیاتی اثر آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیل سکتا ہے۔ یہ صاحبانِ اقتدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی بیداری کو فروغ دے کرہمیں خطرناک کرزمہ کی اجارہ دارانہ گرفت سے بچائے۔
اپنے سیاسی نظریات کو مطلق سچائی اور دوسروں کو غلط سمجھنے کے بجائے، آئیے ہم اس بات کا پردہ فاش کرنے کی کوشش کریں کہ کس نے ہماری سوچ کو ہائی جیک کیا ہے۔
"تفسیرِ سیاست” کی گرہیں کھولنے اور اپنی فکری خودمختاری کے لئے لائبریری کا رُخ کریں ۔ کیوں کہ ہماری آخری اُمید ہم خود ہیں۔