Many editions of Allama Iqbal’s famous persian collection "Piyam-e-Mashriq” have been published and their urdu translation is also been given up. This book have been written in response of east and west collections of Germen Poet Goetay. The abstract of this book contain three main issues ie persian affects on German Art, similarity in the poetry of Allama Iqbal and Goetay and promote awareness of this art among the people.
علامہ اقبال ”رموزِ بے خودی“ کی تکمیل و طباعت (۰۱ اپریل ۸۱۹۱ئ) اور معاً بعد ”اسرار خودی“ کے دوسرے ایڈیشن کی تیاری سے فارغ ہوئے تو فارسی گوئی کی طرف ان کا میلان زوروں پر تھا۔ اگرچہ گاہے گاہے، وہ اُردو میں بھی شعر کہہ لیتے تھے مگر ”دِل کا بخار“ نکالنے کے لئے اُردو کے مقالے میں فارسی کو زیادہ موزوں پاتے تھے۔ یوں تو ”پیام مشرق“ کی ایک غزل انہوں نے ۵۱۹۱ءمیں کہی تھی(۱)، اور ممکن ہے، بعض دیگر غزلیات اسی دور میں، یا اُس سے بھی پہلے کہی ہوں، تاہم ”پیام مشرق“ کی طرف پوری توجہ، انہوں نے ”اسرار خودی“، طبع دوم کی تکمیل کے بعد ہی مبذول کی۔
ابتداءمیں ان کا خیال تھا کہ اُردو اور فارسی منظومات ملا کر ایک مجموعہ تیار کر لیا جائے(۲)(اکتوبر ۹۱۹۱ئ)، مگر بعد میں اُردو کلام کو مجوزہ مجموعے میں شامل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا، اس طرح دیوان فارسی کی ضخامت مجوزہ مجموعے کے محض ایک تہائی کے برابر بنتی تھی(۳)۔
پیامِ مشرق علامہ اقبال کی تیسری فارسی کتاب ہے جو ۳۲۹۱ءمیں چھپی۔ یہ کتاب جرمن شاعر گوئٹے کے دیوان شرقی اور غربی کے جواب میں لکھی گئی(۴) جس کی نسبت جرمنی کا اسرائیلی شاعر ہائنا لکھتا ہے(۵) یہ ایک گلدستہ عقیدت ہے جو مغرب سے مشرق کو بھیجا ہے ….“(۶)۔ جرمن شعراءنے جس حد تک عجمی شعراءکی خوشہ چینی کی ہے اور ان کی تقلید میں مشرقی تخیل سے کام لے کر اپنے ادبیات میں جو رنگینی پیدا کی ہے اس کا مختصر خاکہ اقبال نے پیام مشرق کے دیباچہ میں پیش کیا ہے ۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا اور نہ سامان جس سے وہ اس مطالعہ، کی تکمیل کر کے ایک مفصل تبصرہ لکھتے۔ اس لئے ان کی یہ آرزو تھی کہ کوئی شخص اس کام کو انجام دے(۷)۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
”مشرقی تحریک کی پوری تاریخ لکھنے اور جرمن شعراءکا تفصیلی مقابلہ کر کے عجمی اثرات کی صحیح وسعت معلوم کرنے کے لئے ایک طویل مطالعہ کی ضرورت ہے جس کے لئے نہ دولت میسر ہے نہ سامان۔ ممکن ہے یہ مختصر خاکہ کسی نوجوان کے دل میں تحقیق و تدقیق کا جوش پیدا کرے“ (۸)۔
پیامِ مشرق کے اردو دیباچہ کی تین خاص باتیں ہیں۔ پہلے یہ تحقیقی بحث ہے کہ جرمن ادبیات پر فارسی ادب کے کیا کیا اثرات ہیں؟ گوئٹے اور دیگر جرمن شعراءفارسی شعراءخصوصاً خواجہ حافظ شیرازی سے کس حد تک متاثر ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں اقبال نے ۲۲۹۱ءمیں اپنے مطالعہ اور یادداشت کے بھروسے پر جو کچھ لکھا ہے، اس موضوع پر خصوصی تحقیق کرنے والوں نے بھی ابھی تک ان سے زیادہ نہیں لکھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال انیسویں صدی کے جرمنی اور بیسویں صدی کے عالم اسلام کی مماثلت اور گوئٹے اور اپنے کلام کی یکساں نوعیت کے مقاصد بتاتے ہیں(۹)۔ تیسری بات وہ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی فارسی تصانیف کے ذریعے خصوصاً انسانوں کے قلوب و نفوس میں انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ جب دل بدل جاتے ہیں تو دنیا بدل جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ اس قوم کے افراد خود اپنی حالت کو بدل نہ دیں (۰۱)۔
ملت اسلام وحدت انسانیت، وحدت مذاہب اور ایک بلند و برتر خدائی تصور کی قائل ہے۔ رنگ و نسب کا تعصب ان کے ہاں بالکل نہیں۔ وہاں نہ رہبانیت ہے اور نہ محض دنیا پرستی۔
جس دعوت کی اساس قرآن ہو وہ اقوام و ملل کی قیود سے بالاتر رب العالمین کی طرح ”عالمینی“ ہوتی ہے اس کا مقصود و مخاطب انسان ہے(۱۱)۔ اقبال کہتے ہیں کہ مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی مسلسل نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے۔ مگر اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہئے کہ زندگی اپنی خودی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو اور کوئی نئی دنیاخارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک اس کا وجود اپنی حالت بدلنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے اِنَّ اﷲَ لَا یُغَیّرُ مَا بِقَومٍ حَتیّ یُغَیِرُّ و امٰا بِآنفُسِہِم(۲۱) کے سادہ اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے اور اوپر اس کاترجمہ مذکور ہے۔ زندگی کے جزوی اور اجتماعی دونوں پہلوﺅں پر حاوی ہے(۳۱)۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اقبال نے پہلی بار گوئٹے کے نام سے برصغیر کے لوگوں کو روشناس کروایا ہے۔
اُردو مقدمے کے بعد فارسی متن کا آغاز ہوتا ہے۔ ”پیامِ مشرق“ کی اشاعت کے وقت امان اﷲ خان افغانستان کے بادشاہ تھے (۴۱) مگر بعد میں انہیں ملک چھوڑنا پڑا اور ۰۶۹۱ءمیں انہوں نے اٹلی میں انتقال کیا ۔ اقبال نے کتاب کا انتساب اس بادشاہ کے نام کیا تھا(۵۱)۔
شروع میں اقبال اپنا اور گوئٹے کا موازنہ کرتے ہیں۔ پھر وہ مسلمان ممالک کے زوال و انحطاط کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ بادشاہ سے کہتے ہیں کہ غیرت مند افغانوں کی تربیت جاری رکھو اور اس کوہستانی سرزمین میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت کی یاد تازہ کر دو۔ وہ فرماتے ہیں کہ مغربی اقوام کے علوم و فنون سے مسلمانوں کو مالامال ہونا چاہئے۔ وہ سلطان مراد اول عثمانی کی درویش خوئی کا ذکر کرتے ہیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ مدائن کے گورنر تھے مگر اس عہدے نے ان کی درویش مشربی میں کوئی فرق نہ آنے دیا۔ اقبال بادشاہ سے فرماتے ہیں کہ وہ بھی شاہی لباس میں درویشانہ دل رکھے اور عشق رسول کی متاع سے بہرہ مند ہونے کی کوشش کرے(۶۱)۔
”پیام مشرق“ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں، تو یہ چار حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصہ میں جس کا عنوان ”لالہ طور“ ہے، قطعہ نما رباعیات ہیں، جن میں لطف زبان کے ساتھ ساتھ خودی کے وجد آفریں رموز بھی ملتے ہیں، دوسرے حصے میں ”افکار“ کے عنوان کے تحت گل نخستیں، دُعا، تسخیر فطرت، ہلال عید ،بوئے گل، نوائے وقت، فصلِ بہار، افکار انجم، علم و عشق، سرودانجم، قطرئہ آب، شاہین و ماہی، شبنم، حکمتِ فرنگ، جوئے آب، نادعالمگیر، بہشت اور کشمیر کے علاوہ اور کئی چھوٹی چھوٹی نظمیں نظم کی گئی ہیں، ان میں سے اکثر نظموں میں اقبال کا رنگین تخیل فارسی، تغزل کے رنگوں کے پھول برساتا ہے جبکہ ”پیامِ مشرق“ کے تیسرے حصے میں خواجہ حافظ کے مشہور مصرعہ ع بدہ ساقی مئے باقی سے ”مئے باقی“ کے عنوان کے تحت علامہ اقبال نے حافظ کے رنگ میں نہایت پرجوش اور مستانہ انداز میں غزلیں کہی ہیں ۔ چوتھے اور آخری حصے کا عنوان ”نقش فرنگ“ ہے اور اس میں مغرب کے بعض حکماء اور مشاہیر مثلاً نطشے، برگساں، ہیگل، ٹالسٹائی، ہائنا اور بائرن وغیرہ پر شاعرانہ طرز میں پرلطف تبصرے منظوم ہیں(۷۱)۔
چوہدری محمد حسین ایم اے نے اس کتاب کے تعارف کے لئے رسالہ ”ہزار داستان“ میں ایک مفصل مضمون لکھا جو ۷۱ مارچ کے ”زمیندار“ میں نقل کیا گیا ۔ چونکہ اس زمانے میں ”زمیندار“ کی ادارت سالک اور مہر کے سپرد تھی اور ان دونوں کو حضرت علامہ کی شخصیت سے خاص محبت اور ان کی علمی حلالتِ قدر سے مخصوص عقیدت تھی اور ان کی تعلیمات کی نشر و اشاعت کے لئے مخلصانہ جوش رکھتے تھے اس لئے ”زمیندار“ میں علامہ کی تصانیف کے متعلق اطلاعات اور ان پر تنقیدی و تفریطی مقالات اکثر شائع ہوتے رہتے تھے۔ خود حضرت علامہ بھی بے حد شفقت فرماتے تھے اور کبھی کبھی ”زمیندار“ کو اپنے غیر مطبوعہ کلام سے بھی مشرف فرماتے رہتے تھے(۸۱)۔
”پیام مشرق“ کا مسودہ چوہدری محمد حسین نے اشاعت کے لئے مرتب کیا(۹۱) اور کتابت عبدالمجید (پروین رقم) نے کی (۰۲)۔ یہ کتاب منظر عام پر آتے ہی، دو ہفتے کے اندر نصف کے قریب فروخت ہو گئی(۱۲)۔ اس غیرمعمولی مقبولیت کے پیش نظر اقبال نے ۳۲۹۱ءکی تعطیلات گرما ہی میں دوسرا ایڈیشن مرتب کرنا شروع کر دیا (جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ”غالباً جرمنی میں طبع ہو گئی“)(۲۲)۔ پہلا ایڈیشن ۲ فروری ۴۲۹۱ءتک ختم ہو گیا(۳۲)۔ اس اثناءمیں دوسرا ایڈیشن مرتب ہو کر کتابت ہو چکا تھا۔ چنانچہ فروری ۴۲۹۱ءہی میں یہ ایڈیشن طباعت کے لئے پریس بھیج دیا گیا(۴۲)اور مارچ کے آخری ہفتے میں منظر عام پر آیا (۵۲)۔ (۳۲۹۱ءسے ۶۸۹۱ئ) تک اس کتاب کے اٹھارہ ایڈیشن ۶۳ ہزار کی تعداد میں چھپ چکے ہیں(۶۲)۔