کالمز

کیا پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ بنے گی؟ (شکیل سلاوٹ)

کیا پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ بنے گی

شکیل سلاوٹ

سال 2024ءدنیا کے بیشتر ممالک میں انتخابات کا سال ہے، کچھ ممالک میں ابتدائی پانچ ماہ میں انتخابات مکمل ہو کر حکومت سازی کا عمل بھی مکمل ہو چکا ہے جبکہ پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں انتخابی عمل جاری ہے جس میں 29 ریاستوں کے ووٹر سات مراحل میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان انتخابی نتائج کا اعلان ڈیڑھ ماہ بعد 4 جون کو کیا جائے گا۔
پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی وفاق اور پنجاب میں حکومت ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ اور بلوچستان میں حکومت ہے۔ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان دوستانہ ماحول رکھا گیا ہے اس لئے پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت میں شمولیت کا فیصلہ تاحال نہیں کیا لیکن یہ بھی طے کر رکھا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کو گرانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائے گی۔ اس عمل میں دونوں بڑی جماعتوں میں کچھ فارمولے طے کئے ہوئے ہیں کہ کس طرح مل کر پاکستان میں حکومت کرنی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایوان صدر میں اپنا صدر آصف علی زرداری کو بٹھا دیا ہے۔ سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین منتخب کروا دیا گیا ہے، کے پی کے میں فیصل کریم کنڈی کو گورنر نامزد کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں سردار سلیم حیدر خان ، پیپلز پارتی کی جانب سے گورنر پنجاب ہیں۔ کے پی کے میں گورنر فیصل کریم کنڈی نے گورنر ہاﺅس میں حلف اٹھا لیا ہے۔ اس حلف برداری کی تقریب میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے شرکت نہ کر کے سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کی روایات کو برقرار رکھا ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے 8 فروری کے انتخابات کے بعد وفاق میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے جس میں وزیراعلیٰ کے لئے میاں شہباز شریف نے اپنی کابینہ بنا کر فرائض انجام دینا شروع کئے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اسپیکر قومی اسمبلی کے لئے ایاز صادق کو نامزد کر رکھا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز وزیراعلیٰ کے فرائض انجام دے رہی ہیں اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ، بلوچستان میں سرفراز بگتی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جو کہ وفاقی حکومت اور صوبائی گورنر کو نہیں مانتی۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتیں فارم 45 اور 47 کے ذریعے وجود میں آئی ہیں جس کی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی بھی تائید کرتے ہیں۔

تحریک انصاف اور ان کے ہم خیال سیاسی رہنماﺅں کے لئے ایک بہت ہی گولڈن چانس تھا وہ ضمنی انتخابات میں صرف ایک وہ قومیت سے بھی کی نشست پر مسلم لیگ (ن) کو شکست دے دیتے جو کہ مریم نواز نے چھو ڑی تھی لاہور کے حلقہ این اے ون ون نائن میں تحریک انصاف اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو شکست دیتی تو یہ بات ثابت ہو جاتی کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت فارم 45 اور 47 سے بنائی گئی ہے لیکن تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ اب جبکہ پاکستان میں ملکی معیشت کے لئے اقدامات موجودہ حکومت کر رہی ہے، سعودی عرب چین جو کہ پاکستان کے سب سے قریبی دوست کہلاتے ہیں وہ نہ صرف مالی تعاون کر رہے ہیں بلکہ اپنے بڑے بڑے کاروباری افراد کو بھی وفد کی شکل میں پاکستان بھیج رہے ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لئے ہر جانب سے آوازیں آ رہی ہیں۔ ایسے حالات میں مولانا فضل الرحمان کا کراچی میں جلسہ اور 9 مئی کے دن یہ وہ دن ہے جب تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنوں نے اپنی قیادت کے ساتھ مل کر فوجی تنصیبات پر نہ صرف حملے کئے بلکہ ان کی بے توقیری بھی کی۔ مولانا فضل الرحمان پشاور سے ملین مارچ کریں گے۔ یہ جے یو آئی کی اپنی سیاست ہے۔

چیف آف آرمی سٹاف کا حالیہ خطاب جو کہ رسالپور اکیڈمی میں پاک فوج کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور نظریات کا برملا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ کے حوالے سے آنے والی درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔ پاکستان میں دیکھا جائے تو کوئی سیاسی افراتفری نہیں ہے، ہر ادارہ اپنے کام کر رہا ہے اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھا رہا ہے۔ ان حالات میں کچھ اطلاعات یہ بھی موصول ہو رہی ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی شاید حکومت کا حصہ بن جائے اور آٹھ سے دس وزارتیں پیپلز پارٹی کو ملیں یہ تاثر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی گورنرز کی تعیناتی کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں دوبارہ بلاول بھٹو زرداری کو حکومت میں شامل ہونے کی دعوت پر پیدا ہوئی ہے۔

پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لئے جو ملک میں ہو رہا ہے، اسے مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب سعودی وزیر خارجہ اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ دورہ پاکستان، ایرانی صدر کا دورہ پاکستان، مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کا دورہ چین، سعودی عرب کے ایک اور وفد کا پاکستان آنا سب مثبت اشاریئے ہیں۔ اگر کوئی مثبت اشارہ نہیں دے رہا تو وہ اڈیالہ جیل کا قیدی ہے جو اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہی نہیں چاہتا، وہ صرف اقتدار چاہتا ہے، اپنی رہائی چاہتا ہے، لندن کے اخبار میں اپنے مضمون شائع کر کے اعلیٰ قیادت کو پیغام دیتا ہے پاکستان کو اتحاد و یگانگت کی ضرورت ہے، بہت غربت بڑھا دی گئی ہے، اب مہنگائی کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ امن و امان کی ضرورت ہے جو کہ سیاسی استحکام سے ہی پیدا ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button