کالمز

زرد دائرہ

محمد طارق علی

موت ایک ایسا سوال ہے جو ہر فرد کے دل و دماغ پر چھایا رہتا ہے۔ یہ ایک ایسے رقیب کا نام ہے جو ہمیں ہر وقت گھیرے میں لیے رہتا ہے۔ اس کا قرب ہمیں بہت کھلتا ہے۔ ہم اس کے خیال سے، اس کے خونی پنجوں کی پہنچ سے ہر ممکن طور پر بچنا چاہتے ہیں لیکن آنکھ بچاکر ہم اِدھر اُدھر ہو بھی جائیں، تب بھی یہ وحشت خیز خیال، یہ خوف ناک اور اٹل حقیقت، ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی، سائے کی طرح ہمارے ساتھ لگی رہتی ہے۔ جب کبھی ہم کوئی نیا کام کرنے لگیں، یا دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر تاش کھیلیں، ان کے ہر اچھے برے لطیفے پر دل کھول کر قہقہے لگائیں، کہیں پکنک پر چلے جائیں یا ٹی وی پر کوئی مزاحیہ ڈرامہ یا فلم دیکھ رہے ہوں یا کسی عزیز یا دوست کے ہاں شادی کی محفل سجی ہو، ہم بھی وہاں موجود ہوں اور زندگی کی رونقیں دیکھ دیکھ خوش ہو رہے ہوں ، ہنس رہے ہوں، تو اسی سمے یوں ہی، بس اچانک کوئی ہمارے ذہن کو آ دبوچتا ہے اور کہتا ہے:
”ہنس لو جتنا ہنسنا ہے، پَر یاد رکھو، تم میری گرفت سے باہر نہیں ہو۔“
یہ خیال ہوتا ہے، اُسی خوف ناک سی ہستی کا جو ہماری ازلی رقیب ہے جو ہمیں خوش دیکھنا نہیں چاہتی۔ ہمیں ہنستے دیکھ کر ایک طنزیہ سی ہنسی ہنستی ہے اور اس کی ایک اَن کہی آواز ہماری سوچ سے آ ٹکراتی ہے:
”تم کب تک یوں ہی ہنستے پھرو گے، یہ میرے خونی ہاتھ تمہارے گلے سے بہت زیادہ دُور نہیں ہیں۔ بس ادھر اُس مالک کا حکم ہوا اور میں نے چند سیکنڈ میں ٹینٹوا دبا کر تمہیں اس دنیائے آب و گل سے باہر کیا۔“
یہ آواز ہمیں اس طرح آتی ہے جیسے کوئی اچانک ہمارے کان میں سرگوشی کرے اور کہیں چھپ جائے۔ ہم اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں مگر کوئی نظر نہیں آتا۔ ہم اس معکوس خیالی پیکر اور اس کی سرگوشی کو ذہن سے جھٹک دیتے ہیں اور دوبارہ دنیا اور اس کی دل چسپیوں میں گم ہو جاتے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ یہ تو کوئی یوں ہی فضول سا واہمہ تھا۔
سرد رات کے اندھیروں میں جب کوئی دوسرا ساتھ نہیں ہوتا، ہم نیند کی ناراض دیوی کو منانے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں تو ایسے میں بس یوں ہی ایک عجیب سی سرسراہٹ ہمیں آن گھیرتی ہے، کوئی اَن دیکھا وجود، پُراسرار انداز میں ہمارے آس پاس منڈلانے لگتا ہے۔ اگر اس کی طرف ہم زیادہ دھیان کریں تو ہمارا حلق خشک اور اس کا گھیرا ہمارے اِردگرد تنگ ہونے لگتا ہے۔ پھر جیسے کوئی خواب ناک انداز میں سرگوشی کرنے لگتا ہے۔
”مت بھولو کہ تم ہر وقت ایک زرد دائرے میں قید رہتے ہو، لاکھ زور لگا لو، اس سے باہر نکلنا تمہارا مقدّر نہیں ہے۔ تم جہاں کہیں بھی جاﺅ، میں تمہارے ساتھ ہوتا ہوں، تمہاری نگرانی کرتا ہوں اور اس دائرے سے باہر جانے نہیں دیتا۔ یہ بھی جان رکھو کہ ایک راہ داری کا پروانہ جو تمہارے نام کا ہوتا ہے، ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے۔ یہ زندگی ایک سفر ہے اور وہ ایک آخری اسٹیشن جہاں سے تمہیں اگلی منزلوں کا سفر اختیار کرنا ہوتا ہے، ایک لمبا اور یک طرفہ سفر۔ تمہیں اس جگہ یا اسٹیشن کا نام معلوم نہیں، مگر اس الوہی حکم کا مجھے جیسے ہی پتہ چلتا ہے مطلوبہ شخص کو فوراً ملکِ عدم کی طرف روانہ کر دیتا ہوں۔ کیا تم وہ پروانہ¿ راہ داری، وہ یک طرفہ ٹکٹ دیکھنا چاہو گے؟“
یہ بڑا ہی خوف ناک سا سوال ہوتا ہے، یوں لگتا ہے کہ بہت سفاک سی نظروں نے ہم انسانوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ موت کے کئی مناظر خود بخود آنکھوں میں آ سماتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے وہ چہرے سامنے آ جاتے ہیں جو ہمارے اپنے عزیزوں کے، ہماری بہت ہی پیاری ہستیوں کے تھے۔ یہ چہرے سامنے آتے ہی جدائیوں کے خوف ناک لمحات خود بخود یاد آنے لگتے ہیں، وہ فوت شدہ عزیز کفن میں لپٹے چپ چاپ، بے بس حالت میں لیٹے ہوتے ہیں۔ ان غم ناک لمحات میں ایک بہت ہی مکروہ سی خوش بو یعنی سلگتے ہوئے لوبان کی بُو ہر طرف پھیلی ہوئی ماحول کو اور مکدّر بنا رہی ہوتی ہے۔ یہ اصل میں موت کی گھناﺅنی سی بُو ہوتی ہے، سخت ناگواراور ہر جگہ ہمارا پیچھا کرتی ہوئی۔ یہاں تک کہ جب لوگ کفن پوش مردے کو اٹھا کر اسے شہرِ خموشاں کی جانب لے کر چلتے ہیں، یہ موت کی مکروہ بُو ہمارے ساتھ ساتھ چلتی اور ہمیں بار بار یاد دہانی کراتی ہے کہ وہ بے شمار پرفیومز، سینٹ اور دیگر خوشبوئیں جو تم بڑے شوق سے خود پر سپرے کر کے سجے بنے پھرتے تھے، اب اس لوبانی بدبُو کا بھی مزہ لے کر دیکھو، ہم اِدھر اُدھر منھ پھیر کر اس ناگوار بُو سے کترانے اور بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہاں یاد آیا، بات ہو رہی تھی اُس خوف ناک سی، اَن دیکھی ہستی کے ڈراﺅنے سوال کی، وہی پروانہ¿ راہ داری والا سوال، ہم اُسے فوراً جھٹک دیتے ہیں اور رات کی میٹھی نیند کا خیال دل سے نکال کر کوئی کتاب یا اخبار کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر اس وقت یہ اشیاءمیسر نہ ہوں تو پھر ٹی وی آن کر دیتے ہیں اور اسی کے ساتھ ہمیں ایک بھیانک قہقہے کی گونج سنائی دیتی ہے مگر ہم اپنی دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں اور وہ بیکار واہمہ ہمارے تصور سے نکل کر خود بخود کہیں معدوم ہو جاتا ہے لیکن وہ آواز، ایک مکروہ سا قہقہہ لگا کر جاتے جاتے متنبہ کرتی ہے:
”تم کچھ بھی کر لو، ہم ہر سمت سے تمہیں دیکھ رہے ہیں،اب نہ سہی، پھر کبھی نہ کبھی ہم تمہیں اسی دائرے کے اندر آ پکڑیں گے، پھر تم کچھ بھی کر نہ پاﺅ گے، تمھارا وجود ایک سرد مجسمے کی صورت اختیار کر لے گا، کوئی تمھیں ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرے گا، موت کی ناگوار بُو ہر طرف سے تمھیں گھیر لے گی اور اسی کے ساتھ تمھارا آخری سفر شروع ہو جائے گا، ایک اَن دیکھی منزل کی جانب۔“
پھر اُسی وقت دل میں گھسا ایک بے نام اندوہ، ایک بے پہچان غم کا کانٹے دار بوٹا یکایک بڑا ہو کر لہلہانے لگتا ہے اور کان میں کوئی چپکے چپکے کہتا ہے:
”تم اس بوٹے سے پیار کرو، اس میں حقیقت کے پھل لگتے ہیں، یہی پھل تمھیں کھانے ہیں۔“
جب زرد موسموں میں درختوں سے پتّے جھڑتے ہیں، ہوا انھیں اُڑا کر کہیں دُور لے جاتی ہے اور سرما کی ایک سرد سی بے مہر شام جب ہمیں چپکے سے آ کر چھوتی ہے، تو دل جانے کیوں کانپ اٹھتا ہے۔ اسی شام کے جلو میں گہری سیاہ رات ہماری ذات کی رِدا پر ، ہمارا نام پوچھے بغیر، ایک دبیز اجنبیت کی دُھند میں ہم سے آ کر لپٹ جاتی ہے۔ ہمارے اردگرد یاس کے دیئے جل اٹھتے ہیں اور میرے دل میں ایک گہرا زرد خلا کہیں اندر ہی اندر اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ یہ غم میرا نہیں، پھر بھی بن پوچھے مجھ سے آ کر چپک جاتا ہے، میرے ساتھ رہنے لگتا ہے، میری سانسوں میں اپنی سانسیں ملا کر، میرے کسی بہت قریبی عزیز کی طرح۔ مجھے اس کا یہ بے طلب ساتھ اچھّا نہیں لگتا۔ مَیں اس سے بالآخر پوچھتا ہوں:
”تم کون ہو؟“
وہ کہتا ہے: ”میں تمھارا ہم زاد ہوں، تم جانو یا نہ جانو، میں پہلے بھی تمھارے ساتھ تھا اور اب بھی تمھارے ساتھ ہی رہوں گا، ایک سائے کی طرح، ایک اَن دیکھے عکس کی طرح، تمھاری سرشت کا پرتو بن کر۔ میں تمھارے ساتھ رہ کر تمھیں اس زرد دائرے کی پہچان کراتا رہوں گا جو ہمہ وقت تمھیں حالتِ قید میں رکھتا ہے، اس دائرے کو تم ہمیشہ بھولے رہے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ تم اس کی حقیقت کو جان لو۔“
میں گھر میں کسی سے اس ہم زاد کا ذکر نہیں کرتا مگر دل کا خلا بڑھتا جاتا ہے۔ ہم زاد میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اس کے پاس موت کے سندیس کے سِوا اور کچھ نہیں اور مجھے اُس کی کوئی پروا بھی نہیں۔
ایک روز میری ایک قلم کار دوست فاخرہ اکبر فون پر بات کرتے ہوئے مجھ سے کہتی ہے:
”میری زندگی کچھ عجیب سی ہو گئی ہے۔ دل کسی خوشی کو اپنا نے سے گریزاں رہنے لگا ہے، کوئی چمک دار لمحے اس کو آ کر نہیں چھوتے اور اگر کہیں غلطی سے ایسا ہو بھی جائے تو یہ اُن لمحوں سے بے رُخی برتتا ہے، بہت گہری اجنبیت دکھاتا ہے۔ لگتا ہے یہ دل میرا نہیں، پَرایا ہے۔ ایسے اہم اور خوشی آمیز موقعوں پر ایک اجنبی آواز قریب آ کر مجھے کہتی ہے ”بہتر ہو گا کہ تم خوشی کے ان لمحوں سے بچ کر رہو، تمھارا ان سے کیا کام؟ تمھاری عمر ساٹھ سے اوپر ہو چکی، اب تمھیں ایک دن مر جانا ہے۔“
فاخرہ بات جاری رکھتی ہے:
”جب کبھی مجھے شادی بیاہ یا خوشی کی کسی تقریب میں کہیں جانا ہو، میں تیار ہو جاتی ہوں، گاڑی میں سب گھر والے بیٹھ جاتے ہیں اور مجھے ساتھ آنے کے لیے آواز دیتے ہیں، تو اُسی وقت وہی آواز مجھے روک کر کہتی ہے:تم کیوں جا رہی ہو، ایسی محفلوں میں اب تمھاری کوئی گنجائش نہیں، تمھارے تو مرنے کے دن قریب آ چکے۔“
میری لکھاری دوست مجھ سے مزید کہتی ہے:
”کبھی کوئی اچھی ڈش کھانے کو میرا دل چاہے یا کوئی نئے چلن کا، نئے ڈیزائن کا کپڑا دیکھ کر میرا من للچائے تو وہی بے نام آواز میرا دامن تھام لیتی ہے اور کہتی ہے، یہ ذائقے دار کھانے، یہ چمچماتے ہوئے نئے لباس اب تمھارے لیے نہیں ہیں، تمھیں تو ایک دن اس دنیا کو خیرباد کہہ دینا ہے۔“
پھر وہ ”قلم کارہ“ مجھ سے پوچھتی ہے:
”طاہر، بتاﺅ، ایسا کیوں ہے؟ ایک گہری یاسیت، ایک بے نام سی لاتعلقی کا رویہ، مجھے کیوں ہمہ وقت گھیرے میں لیے رکھتا ہے، کیا یہ صرف میرے ساتھ ایسا ہے یا تم بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہو؟“
”ہاں میں بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہوں، کوئی اندرونی آواز مجھے بھی مسلسل روکتی ہے، ہر نئی اور اچھی چیز سے، خوشی کی کسی محفل میں جانے سے، یہاں تک کہ کوئی اچھا گانا سننے سے بھی اجتناب برتنے کا کہتی ہے لیکن میں اس بے نام آواز کو، اس اَن چاہے خیال کو جھٹک دیتا ہوں اور فوراً ہی غالب کا مشہور مصرعہ میرے لبوں پر آ جاتا ہے ”موت کا ایک دن معیّن ہے“۔ اس مصرعے کو سوچتے ہی میں وہی کچھ کرتا ہوں، جو میں چاہتا ہوں۔“
”تم ٹھیک کرتے ہو لیکن میں ایسا نہیں کر سکتی، میں خود کو اکثر ایک زرد دائرے میں مقید پاتی ہوں اور ایک بے نام سے خوف میں گھِر جاتی ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ دائرہ موت کا ہالہ ہے کیونکہ اس پر زردی چھائی ہوئی ہے جو اسے بہت خوف ناک بناتی ہے چنانچہ میں بے بس ہو کر اس آواز کا کہا مان لیتی ہوں“ ۔فاخرہ اکبر کا جواب۔
”میں ایسا نہیں کرتا، پہلے میں نے اس معاملے پر خوب سوچا اور پھر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ آواز میرے ہم زاد کی آواز ہوتی ہے اور رہا زرد دائرہ، یہ موت کے وجود کی، اُس کی ذات کی پہچان کی ایک علامت ہے۔“
”اس کا مطلب ہے میرا ہمزادبھی بہت نمایاں ہو کر میرے ساتھ ہے، میرے روزمرہ کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا رہتا ہے۔“
”ہاں ممکن ہے، لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ ہم زاد کی بجائے موت کی اہمیت کہیں زیادہ ہے تو جب قانونِ فطرت کے تحت اس کا وقت مقرر ہے تو پھر اس سے کیا ڈرنا؟ میں نے اس کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ اب میں اسے اپنا دوست سمجھتا ہوں کہ اسی کے ساتھ میرا ہمیشگی کا ساتھ جڑا ہوا ہے۔“
”لیکن موت سے دوستی؟ کیا مطلب؟“
”مطلب یہ کہ موت سے مفر ممکن نہیں ہے، یہ ناگزیر ہے۔ سو میں نے اس سے ڈرنا چھوڑ دیا، اب یہ میری ہم راز ہے، میری ہم دم اور دم ساز بھی، یہ میری جنم جنم کی ساتھی جو ہوئی، اگر ہم زاد کے ذریعے مجھے اس کی آواز آتی ہے تو یوں لگتا ہے یہ کسی دشمن کی نہیں، دوست کی آواز ہے۔ یہ موت ہی ہے جو روزمرہ کی زندگی میں مجھے میانہ روی سکھاتی ہے، مجھے صراطِ مستقیم پر چلتے دیکھنا چاہتی ہے تاکہ میں بے راہ رو ہو کر کہیں بھٹک نہ جاﺅں، سیدھا چلتا رہوں، ایک ازلی سچائی کی جانب، ایک ابدی خوشیوں بھری زندگی سے دائمی اتصال کی راہ پر-“
”تمھاری بات سمجھنے کے لیے وقت درکار ہے“ فاخرہ نے ہنستے ہوئے کہا
”ہاں، لیکن آدمی کو ہمیشہ سے وقت کی کمی رہی ہے ، یہ مت بھولنا“۔ میں نے جواباً کہا
اور پھر ہم نے اپنے اپنے فون بند کر دیئے۔
محمد طارق علی
موبائل 0313-5367544

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button