وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنا ہماری اولین ترجیح ہے، ہر ایک کو ٹیکس نیٹ میں لانے ناگزیر ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی 13 فیصد تک لے جائیں گے، زیادہ آمدن والوں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ ہوگا کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
معاشی ٹیم کے ہمراہ جمعرات کو پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 13 فیصد تک لے کر جائیں گے، معیشت کی ڈیجیٹائزیشن حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں اضافے پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ زیادہ آمدن والوں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ ہوگا کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پٹرولیم لیوی پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ عالمی تیل کی کمپنیوں کو دیکھ کر کریں گے، عالمی تیل کی کمپنیوں کے معاملات کو مانیٹر کر رہے ہیں، نان فائلرز کی اختراع سمجھ نہیں آتی، نان فائلرز کی اختراع شاید ہی کسی اور ملک میں ہو گی، نان فائلرز کے کاروبار اور لین دین پر ٹیکس کی شرح بڑھا رہے ہیں نان فائلرز کے لیے بزنس ٹیکس ٹرانزیکشن میں اضافہ کیا جا رہا ہے جس کا مقصد انہیں بھی ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانا ہے، 10 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو نا قابل برداشت ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 13 فیصد پر لے کر جانا ہے جس کے لیے مختلف اداروں کو بہتر کرنا ہے، تنخواہ دار طبقے کیلئے کم ازکم چھوٹ برقرار ہے، تنخواہ دار طبقے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس 35 فیصد ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ 31 ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں، ٹیکس کا اطلاق جولائی سے ہو گا، یہ ٹیکس 2022 میں لگ جانا چاہیے تھا، ریٹیلرز اور ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا مقصد بوجھ بانٹنا ہے، ٹیکس سلیب میں ردوبدل ممکن ہے، سب کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
آئی ٹی سیکٹر میں نوجوانوں کیلئے سہولیات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کی ورک فورس موبلائز ہوئی ہے، مفتاح اسماعیل نے 2022 میں فکسڈ ٹیکس کی بات کی تھی، آئی ٹی سیکٹر میں نوجوانوں کو سہولیات فراہم کریں گے، نوجوانوں کو نوکریاں دینی ہیں اور روزگار ان کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی آئی ایس پی کے افراد کو کس بجٹ میں سہولت ملی، ماضی میں بھی کتنے وزرائے خزانہ نے تاجروں کو یقین دہانی کرائی کہ آپ کو سہولیات دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ پر 6 لاکھ روپے انکم ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھی ہے، نان سیلریڈ کلاس میں پروفیشنل کمیونٹی ہے، اس کےلئے ٹیکس 45 فیصد کیا ہے، ریٹیلرز اور ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اپریل میں درخواست کی کہ تاجر خود کو رجسٹرڈ کروائیں، یہ رضاکارانہ طور پر رجسٹریشن کا طریقہ تھا، 31ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی چارہ نہیں کہ ان سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، جولائی سے ریٹیلرز اور ہول سیلرز پر ٹیکس لگے گا، اس وقت 90 کھرب روپے نقد زیر گردش ہیں، نقد کی ٹرانزیکشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 3.5ارب ڈالر آئی ٹی کی برآمدات ہیں، ایس ایم ایز کے لئے مطلوبہ فنانسنگ میسر نہیں ہوئی، نقد کی ٹرانزیکشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں، 3.5ارب ڈالر آئی ٹی کی برآمدات ہیں، ایس ایم ایز کے لئے مطلوبہ فنانسنگ میسر نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ گورنر سٹیٹ بینک کے ساتھ بینک نئی سکیمز لائیں گے، زرعی شعبے کی فنانسنگ بڑھائی جائے گی، فری لانسر اور ایس ایم ایز کے لئے فنانسنگ پر کام کررہے ہیں، ایکسپورٹ ری فنانس کی سہولت ایگزم بینک منتقل کر رہے ہیں، پی ایس ڈی پی میں جاری منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگ زیب نے کہا ہے کہ پاکستان میں دنیا کی تیسری بڑی فری لانسر پاپولیشن ہے، آئی ٹی سیکٹر کے لیے بہت بڑی رقم مختص کی ہے، مختص رقم سے آئی ٹی سیکٹر میں انفرااسٹرکچر بہتر کیا جا سکے گا، ٹریک اینڈ ٹریس کا نظام تمباکو، سیمنٹ، کھاد اور دیگر سیکٹرز میں جانا تھا، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ میں شاید مسئلہ تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ سیلز ٹیکس میں بہت بڑی لیکیج ہے جس کو پلگ کرنا ہے، سیلز ٹیکس سے متعلق ترجیح ہے کہ اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹائز کریں، ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے کہ کس کے پاس کتنی گاڑیاں اور وہ کتنا بل دیتے ہیں لائف سٹائل کا سارا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے، اس ڈیٹا کے جائزے کے لیے ٹیم بنائیں گے جو چیک کرے، اس کے بعد فیلڈ ٹیم کو اس پر عمل درآمد کا کہیں گے۔
انہوں نے کہا ہے کہ حکومت جس جس سیکٹر سے نکل جائے اتنا ہی بہتر ہے، حکومت کو پرائیوٹ سیکٹر کو آگے لانے کے لیے ماحول دینا ہو گا، ٹیکسز لیکیج کو کم کرنے کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لایا گیا جس کا مقصد تمباکو اور سیمنٹ سمیت ہر شعبے میں ٹیکس چوری روکنا تھا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگ زیب نے کہا ہے کہ پٹرولیم لیوی میں فوری طور پر اضافہ نہیں ہو رہا، پٹرولیم لیوی کو مرحلہ وار بڑھایا جائے گا، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کو مدِ نظر رکھا جائے گا۔
اس موقع پر وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ کٹھن ضرور ہے ناممکن نہیں، عام آدمی کو مہنگائی سے پہنچنے والی تکلیف کا احساس ہے۔
علی پرویز ملک کا کہنا تھا تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس نیٹ نہ بڑھاتے تو ٹیکس کس پر لگاتے؟ ماضی میں خسارے پورے کرنے کیلئے نوٹ چھاپے گئے جبکہ مختلف اوقات میں قرض لے کر بھی خسارے پورے کئے جاتے رہے، بجٹ میں سب سے زیادہ سبسڈی پاور سیکٹر دی گئی ہے۔
علی پرویز ملک کا کہنا ہے کہ مقدس گائے وہ ہوتی ہے جو سسٹم سے باہر نکل کر آمدنی پیدا کر رہی ہو اور ٹیکس نہ دے رہی ہو، پاکستان کے علاوہ ارجنٹینا کی حکومت بھی آئی ایم ایف کے پاس قرض لینے جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف 100 گنا ریلیف دینا چاہتے تھے، جب خسارہ بڑھتا ہے تو اس کے لیے آپ نوٹ چھاپیں یا قرض لے کر اگلی نسلوں پر بوجھ ڈالیں، تنخواہ دار طبقے میں امیر طبقہ زیادہ ٹیکس کی وجہ سے ملک چھوڑ کر جا رہا تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نان فائلرز کو وقت دیا گیا ہے کہ ٹیکس نیٹ میں آئیں، ڈیجیٹائزیشن کے بعد نان فائلرز سے ٹیکس بھی لیا جائے گا اور پوچھا بھی جائے گا۔
علی پرویز ملک نے کہا کہ ہمارے ملک کی کچھ معاشی حقیقتیں ہیں، ایک لاکھ روپے تنخواہ لینے والا مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے، مڈل کلاس پر ہم نے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا، ایک لاکھ روپے تنخواہ والے پر سب سے کم بوجھ ڈالا گیا ہے۔