افسانےکہانیاں

نولکھا ہار

نولکھا ہار
رئیس فاطمہ
بہت پرانے زمانے کی بات ہے بچو!!…. ایک تھا راجہ، بڑا ہی بھلا مانس اور رحم دل۔ وہ اپنی رعایا کا بڑا خیال رکھتا تھا۔ اس راجہ کی ایک رانی تھی، بڑی پیاری اور ہنس مکھ والی بھی، راجہ کی طرح رحم دل تھی۔ ایک بار جب راجہ کے محل میں بہت بڑا جشن منایا جا رہا تھا، راجہ اور رانی کی طرف سے رعایا کو تحفے دیے جا رہے تھے۔ راجہ کی ماں یعنی راج ماتا بھی اس دن بہت خوش تھیں، کیوں کہ ان کا بیٹا اور بہو اپنی پرجا میں بہت مقبول تھے۔ جب جشن ختم ہوا تو راج ماتا نے اپنی بہو رانی لکشمی کو پاس بلایا ، پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں:
”مجھے بڑی فکر تھی کہ ہمارے بعد ہماری پرجا کا خیال تم دونوں رکھ سکو گے یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آنکھ بند ہوتے ہی تم لوگ عیش و عشرت میں پڑ جاﺅ اور پڑوسی ملک کی طرح اپنی پرجا پر ظلم کرنے لگو….لیکن آج میں بہت خوش ہوں …. کہ تم نے اپنے ماں باپ کی نیک اولاد ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ لوگ جس طرح بڑے راجہ صاحب سے پیار کرتے تھے، ویسا ہی وہ تم دونوں سے بھی کرتے ہیں…. بولو راج بہو کیا چاہتی ہو…. مانگو جو مانگنا ہے….“
بہو نے راجہ کی طرف دیکھا اور بولی:
”ماتا جی! مجھے نولکھا ہار چاہیے“
راج ماتا اور راجہ نے چونک کر رانی کو دیکھا کیوں کہ نولکھا ہار بہت قیمتی ہوتا تھا۔ اس زمانے میں صرف مغل بادشاہ ہی ایسے مہنگے ہار پہنتے تھے یا پھر ان کی ملکائیں، چھوٹے موٹے ملکوں کے راجہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن راج ماتا نے چوں کہ وچن دیا تھا اس لیے انھوں نے اگلے دن جوہری کو بلا کر ایک نولکھا ہار بنانے کو کہا اور یہ بھی تاکید کر دی کہ اس کے بنانے میں کسی قسم کی کنجوسی نہ برتی جائے۔ راجہ نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک ایسا نولکھا ہار ہو جو اس سے پہلے کسی نے نہ دیکھا ہو۔ چند ہی دنوں میں جوہری نے ایسا خوب صورت ہار تیار کر کے دیا جس میں سونے کے علاوہ ہیرے، موتی، زمرد، لاجورد، نیلم اور پکھراج جیسے قیمتی نگینے لگے ہوئے تھے۔ راجہ اور راج ماتا کو وہ ہار بہت پسند آیا اور رانی تو اسے دیکھ کر خوشی سے پاگل ہو گئی۔ راجہ نے جوہری کو ہار کی قیمت کے علاوہ بیش قیمت انعامات بھی دیے۔
رانی لکشمی اس ہار کو ہر وقت پہنے رہتی۔ صرف نہاتے وقت اسے اپنی گردن سے اتارتی تھی۔ ایک دن گرمیوں کے موسم میں رانی کا تالاب کے ٹھنڈے پانی میں نہانے کو جی چاہا۔ تالاب محل کے اندر ہی واقع باغ کے کونے میں بنا ہوا تھا اور یہاں صرف راج محل کی راج کماریاں اور رانیاں ہی نہاتی تھی اور ٹھنڈے ٹھنڈے پانی میں تیرتی بھی تھیں۔ چناں چہ رانی اس دن بغیر کسی کو بتائے دوپہر کے وقت جب گرمی زوروں پر تھی تالاب پر نہانے چلی گئی۔ اس نے اپنا نولکھا ہار بھی کپڑوں کے پاس بے فکر ہو کر رکھ دیا کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہاں کوئی نہیں آ سکتا…. لیکن ہوا یوں کہ کہیں سے ایک مور اڑتا ہوا آیا اور تالاب کے کنارے رکھے ہوئے ہار کو چونچ میں اٹھا کر لے گیا۔ یہ راجھستان کا علاقہ تھا جہاں مور بہت ہوتے ہیں۔ مور اس ہار کو لے کر اڑتا جا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک مکان کی چھت پر پڑی جہاں کوڑا کرکٹ کے ساتھ ایک سانپ مرا پڑا تھا۔ سانپ مورکی مرغوب غذا ہے۔ اس نے ہار کو تو چونچ میں سے چھت پہ پھینکا اور سانپ کو لے کر اڑ گیا۔ ہار کوڑے کے ساتھ پڑا رہ گیا۔
اب اُدھر کی سنو…. رانی جب تالاب سے نکلی تو اپنا ہار غائب پایا۔ وہ پریشان ہو گئی اور جا کر راجہ اور راج ماتا کو بتایا۔ راجہ چوں کہ نیک تھا اس لیے اس نے اپنے کسی بھی ملازم پہ شک نہ کیا بلکہ اعلان کروا دیا کہ جو کوئی بھی رانی لکشمی کا نولکھا ہار لے کر آئے گا اسے منھ مانگا انعام دیا جائے گا۔
جس مکان کی چھت پر مور ہار پھینک گیا تھا وہ ایک غریب آدمی مشتاق علی کا گھر تھا جو کہ بیل گاڑی چلاتا تھا، اس کے تین بچے تھے۔ ایک بیٹا احسان اور دو بیٹیاں عائشہ اور حمیدہ۔ مشتاق کی بیوی کچھ کپڑے وغیرہ سی لیا کرتی تھی جس سے کچھ آمدن ہو جاتی تھی۔ احسان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن مکتب بہت دور تھا اس لیے وہ محلے کے ماسٹر جی سے ہی سبق لیا کرتا تھا۔
راجہ کے اعلان کو کئی دن گزر گئے لیکن ہار نہ ملا۔ ایک دن جب بادل گہرے تھے تو احسان کی امی نے اس سے کہا کہ وہ چھت پر جا کے اس کی صفائی کر دے کیوں کہ برسات ہونے سے کوڑا گیلا ہو کر بہے گا اور گندگی پھیلے گی۔ احسان نے فوراً اپنی ماں کا حکم مانا۔ اس کی دونوں بڑی بہنوں نے بانس کی سیڑھی لگائی اور تنکوں والی جھاڑو دے کر اسے اوپر پہنچا دیا۔ احسان اوپر پہنچا تو ہیرے موتیوں کو چمکتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے جلدی سے وہ ہار اپنے کپڑوں میں چھپایا اور نیچے اُتر کر دوڑتا ہوا اپنے ابا اور امی کے پاس پہنچا اور جلدی سے وہ ہار نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا اور بولا:
”بابا! یہ ہار اوپرکوڑے کے پاس پڑا تھا۔“
احسان کی ماں نے جلدی سے وہ ہار اٹھا کر آنکھوں سے لگا لیا اور بولی:
”بس اب ہمارے دلدر دور ہو گئے…. تم یہ ہار شہر جا کر بیچ آﺅ۔ ہم ایک اچھا سا مکان بنا لیں گے اور ہماری بیٹیوں کی شادی بھی اچھی جگہ ہو جائے گی۔ یہ ہار ہمیں اﷲ نے دیا ہے۔“
مشتاق علی نے جھٹ وہ ہار بیوی کے ہاتھ سے لے لیا اور بولا : ”نیک بخت یہ رانی کا ہار ہے…. نولکھا ہار…. جس کے بارے میں راجہ نے اعلان کروایا ہے کہ جو بھی اسے ڈھونڈ کے لائے گا منھ مانگا انعام پائے گا…. میں یہ ہار راجہ کو دے کر آﺅں گا۔“
دونوں بیٹیوں کا منھ بن گیا۔ بڑی بولی: ”ابا یہ کوئی ہم نے چرایا تھوڑی ہے یہ تو بس اﷲ میاں نے کہیں سے دے دیا۔ ہمیں کیا پتہ یہ چھت پہ کب سے پڑا تھا اور کون ڈال گیا۔“
”نہیں بیٹی! ایسی باتیں نہیں سوچتے۔ اﷲ میاں اس سے ناراض ہوں گے۔ میں یہ ہار ضرور راجہ کو دوں گا۔“
احسان نے ہار کو اٹھا کر کہا کہ چوں کہ یہ ہار اسے ملا ہے اس لیے فیصلہ بھی وہی کرے گا کہ اس کا کیا کرنا ہے۔
ماں اور بہنیں امید سے اسے دیکھنے لگیں۔ احسان نے ہار کو جیب میں رکھا اور بولا ….”میں اور ابا یہ ہار لے کر راجہ کے پاس خود جائیں گے اور انھیں دے دیں گے۔“
مشتاق نے بیٹے کو گلے سے لگا لیا۔
بیوی نے پوچھا: ”اور اس کے بدلے میں کیا انعام لو گے؟“
مشتاق بولا: ”کچھ نہیں…. میرے لیے میرا اﷲ ہی کافی ہے اور یہ کسی کی امانت ہے۔“
…………
دو دن بعد مشتاق علی اپنے بیٹے احسان کے ساتھ راجہ کے دربار میں جانے کے لیے تیار ہوا۔ اس نے اپنی بیوی اور بیٹیوں کو منع کر دیا کہ ہار کا ذکر کسی سے نہ کیا جائے۔ پھر اس نے ہار کو اپنی بنڈی کی اندرونی جیب میں حفاظت سے رکھ لیا اور بیٹے کو بھی بہت کچھ سمجھا دیا۔ پورے ایک دن کے سفر کے بعد وہ شام کو شہر پہنچا اور فوراً ہی راجہ کے محل پہنچ گیا۔ وہاں اس نے پہرے دار کو بتایا کہ وہ ایک مسلمان فقیر ہے اور غیب کی مدد سے یہ بتا سکتا ہے کہ رانی کا ہار کہاں ہے؟ پہرے دار نے کہا کہ وہ اسے بتا دے ہار کہاں ہے وہ خود راجہ کو بتا دے گا…. اور جو انعام ملے گا اس میں سے کچھ حصہ اسے بھی دے دے گا۔ مشتاق نے کہا کہ اسے کسی انعام کا لالچ نہیں ہے۔ لیکن وہ رانی صاحبہ کا جنم دن معلوم کر کے ہی بتا سکے گا۔ ابھی اسے پتہ نہیں کہ ہار کہاں ہے۔ اگر تم مجھے راجہ سے نہیں ملاﺅ گے تو کوئی بات نہیں، میں واپس چلا جاﺅں گا…. اتنا کہہ کر وہ واپس جانے لگے تو پہرے دار نے اسے جلدی سے روک لیا اور راجہ کے پاس آدمی بھیج کر مسلمان فقیر کی آمد کا مقصد بتایا۔ راجہ نے فوراً مشتاق کو طلب کر لیا۔ محل میں راج ماتا اور رانی بھی بیٹھی تھی۔ مشتاق اور احسان نے جا کر راجہ کو آداب کہا اور جلدی سے ہار اپنی جیب سے نکال کر راجہ کے سامنے رکھ دیا۔ رانی نے جلدی سے بڑھ کر ہار اٹھا کر گلے میں ڈال دیا اور مشتاق نے ہار ملنے کی پوری کہانی راجہ کو سنا کر جانے کی اجازت چاہی تو راج ماتا نے کہا:

”ٹھہرو…. کیا انعام لے کر نہیں جاﺅ گے…. بولو کیا چاہتے ہو۔ بلا دھرلے بولو۔ جو بھی چاہیے ملے گا۔“
مشتاق سر جھکا کر کھڑا ہو گیا اور بولا: ”راج ماتا اﷲ آپ کو زندگی دے لیکن میں نے یہ ہار کسی انعام کے لالچ میں آپ کو نہیں دیا۔ بس یہ تو آپ کی امانت تھی جو مجھے واپس کرنا ہی تھی کیوں کہ میں جن کا غلام ہوں ان کا لقب ہی صادق اور امین ہے۔“
راجہ نے احسان سے پوچھا: ”تم بتاﺅ بیٹا! تمھیں کیا چاہیے۔ جو بھی مانگو گے ملے گا…. آﺅ میرے پاس۔“
احسان آہستہ آہستہ راجہ کے قریب بڑھا اور خاموش کھڑا ہو گیا۔ پھر آہستہ سے بولا ”مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔“
راجہ نے مشتاق سے کہا: ”ہم اپنا وعدہ ضرور پورا کریں گے۔ تم انعام لیے بغیر نہیں جا سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ جو کچھ ہم دیں وہ تمھیں پسند نہ آئے۔ اس لیے تم خود ہی مانگ لو جو مانگنا ہے۔“
مشتاق نے دل میں کہا: ”میرے لیے تو میرا اﷲ ہی کافی ہے۔“ پھر ادب سے بولا: ”حضور مائی باپ ہم جہاں رہتے ہیں وہ غریبوں کی بستی ہے۔ وہاں کوئی مکتب نہیں ہے جس میں بچے پڑھ سکیں۔ وہاں کوئی کنواں ہے نہ تالاب۔ اس لیے ہماری عورتیں اور بچے بہت دور جا کر پینے کا پانی لے کر آتے ہیں۔ آپ وہاں ایک مکتب اور کنواں بنوا دیجیے اور میرے محلے کے تمام لوگوں کے گھر پکے کروا دیجیے۔ بارش میں وہاں سب کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔“
راجہ نے حیرانی سے پوچھا: ”اور خود تم اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے کیا مانگو گے…. وہ بھی تو کہو۔“
”مکتب کھل جائے گا تو میرا بیٹا بھی پڑھ لے گا۔“ مشتاق نے ادب سے کہا۔
راجہ نے حیران ہو کر راج ماتا اور رانی کی طرف دیکھا۔ ان کے چہروں پر بھی تعجب تھا۔
راجہ نے کہا: ”ہم تمھاری ہر بات کو پورا کریں گے“ اور ملازموں کو حکم دیا کہ مشتاق اور اس کے بیٹے کو آج راج محل ہی میں ٹھہرایا جائے۔ ان کے آرام کا خاص خیال رکھا جائے اور اچھا کھانا کھلایا جائے۔ اور کل صبح بہترین اور قیمتی تحائف کے ساتھ رخصت کیا جائے۔ ملازم خاص خود اسے گھر چھوڑنے جائیں گے۔
اگلے دن ملازم خاص جب مشتاق اور اس کے بیٹے کو چھوڑنے اس کے گھر گیا تب محلے والوں پہ انکشاف ہوا کہ کل کیا ہوا تھا۔ ہر شخص سوچ رہا تھا کہ کاش ہار اس کی چھت پہ گر جاتا۔ کچھ لوگ جلنے بھی لگے۔ بعض ہندوﺅں کو یہ بات بہت ناگوار گزری، لیکن دو دن بعد جب شاہی حکم نامے کے ذریعے انھیں پتہ چلا کہ ایک ماہ میں یہاں کنواں کھد جائے گا اور چھ ماہ کے اندر اندر بستی کے تمام کچے گھر پختہ کر دیے جائیں گے اور ایک مکتب بھی کھول دیا جائے گا تو سمجھ دار ہندو مل کر مشتاق کے گھر گئے اور اس سے معافی مانگی، جب کہ بستی میں زیادہ تر گھر ہندوﺅں کے تھے۔ راجہ کو بھی یہ بات پتہ چلی تو اس کے دل میں مشتاق کی قدروقیمت اور بڑھ گئی۔
چھ ماہ بیت گئے۔ بستی کے تمام گھر پکے ہو گئے، مکتب کھل گیا، کنواں کھد گیا۔ اب عورتوں اور بچوں کو پانی اپنے گھروں کے قریب میں ملنے لگا، میٹھا اور ٹھنڈا پانی۔ مشتاق اب بیل گاڑی نہیں چلاتا تھا۔ راجہ نے اس کی ایمان داری اور دیانت داری کی وجہ سے اسے خزانے کا نگران مقرر کر دیا۔ احسان کو راجہ نے سب سے اچھے مکتب میں داخل کرا دیا جن میں امراءو رﺅسا کے بچے پڑھتے تھے۔ دونوں لڑکیوں کی شادیاں راج ماتا نے اچھے خاندانوں میں کروا دیں۔ مشتاق کی بیوی صرف آرام اور تفریح کرتی تھی، رانی لکشمی نے اسے اجازت دی تھی کہ وہ جب چاہے راج محل آ سکتی ہے۔
ایک دن اس نے مشتاق سے کہا ”تم ہمیشہ کہتے تھے کہ میرے لیے میرا اﷲ ہی کافی ہے۔ آج میں اس پر یقین کرتی ہوں کہ جس کے ساتھ اﷲ ہو وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔“
مشتاق نے کہا: ”اور یہ بھی یاد رکھنا کہ دیانت داری کا صلہ ضرور ملتا ہے چاہے دیر میں ہی ملے، مگر ملتا ضرور ہے۔“
بستی والوں کے لیے مشتاق ایک دیوتا کی طرح تھا۔ انھوں نے اپنی بستی کا نام مشتاق نگر رکھ لیا تھا۔
سچ ہے جو دوسروں کا بھلا سوچتے ہیں، ان کا بھلا خدا سوچتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button