”اوشا“
عاشق الٰہی محمود نظامی
یہ جون 1933ءکا سال تھا۔ میری عمر بھی کوئی سترہ اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھی۔ اس عمر میں انسان کے جذبات اور احساسات کچھ عجیب قسم کے ہوتے ہیں۔ سادے پانی میں بھی شراب ارغوانی کا مزہ محسوس کرتا ہے۔ میرے ماموں پونا میں گورہ پلٹن میں آفیسر تھے۔ انھوں نے مجھے خط لکھا کہ مجھ سے ملاقات کر جاﺅ اور سیروسیاحت کا لطف بھی اٹھاﺅ۔ میں اپنے بھائی محمد سلیمان کے ہمراہ چل نکلا۔ جب ہم بمبئی پہنچے تو دو چار دن سیر کرنے کے بعد محمدسلیمان بضد ہوا کہ اب پونا چلو مگر میں نے کہا کہ میں ابھی اس شہر کو اور دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ ناراض ہو کر پونا چلا گیا کیوںکہ وہاں ہماری پھوپھی بھی رہتی تھی اس کا خاوند وہاں ملازم تھا۔ میں اب بمبئی میں اکیلا رہ گیا۔ دو تین دن سیر کی۔ اس کے بعد گھبرا گیا۔ اتنا بڑا شہر بقول شاعر:
شہر کی ہے رات اور میں دربدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
بمبئی میں ایک بڑا لمبا روڈ ہے، کوئی دو میل لمبا ہو گا۔ اسے فل بازار کہتے ہیں۔ اس کے عین درمیان ایک سنیما گلوب ہے۔ ایک دن وہاں کھڑا تھا کہ ایک لڑکا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ فرنٹیئر پشاور کے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نے شلوار پہن رکھی ہے۔ ویسے وہاں کوئی آدمی شلوار والا نظر نہ آئے گا۔ میں نے کہا کہ میں پشاور کا رہنے والا ہوں۔ پھر اس نے اپنا تعارف کرایا کہ میں رام پور کا رہنے والا ہوں۔ یہاں بمبئی میں سیر کے لیے آیا ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ یار میرے میں گھبرا گیا ہوں۔ بہت بڑا شہر ہے۔ غرض یہ کہ ہم دونوں دوست بن گئے۔ وہ بڑا ہوشیار لڑکا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں دادر (فلموں کا شہر) دیکھنا چاہتا ہوں۔ دوسرے دن وہ مجھے دادر لے گیا۔ وہاں تمام فلم کمپنیوں کے دفتر تھے۔ وہاں ان ڈائریکٹروں کو دیکھا جن کے نام اخباروں میں پڑھا کرتا تھا۔ پھر کہنے لگا کہ ایک اور ڈائریکٹر سے کل آپ کو ملواﺅں گا۔ دوسرے دن ہم ساحل سمندر کی طرف چل پڑے۔ کہنے لگا کہ سہراب مودی کا نام آپ نے سُنا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ وہی سہراب جنھوں نے جیلر فلم بنائی ہے۔ کہنے لگا ہاں وہی بہت بڑا ڈائریکٹر ہے۔ ہم جب ان کی کوٹھی کے باہر پہنچے تو وہاں ایک خوف ناک قسم کا پٹھان کھڑا تھا۔ کہنے لگا خو کدھر جا رہا ہے پیچھے ہٹو۔بدھن نے کہا خان صاحب مودی صاحب سے ملنا ہے۔ خو تم کو کیا پڑی ہے مودی سے ملنے کی۔ تم کون ہو؟ بہ ہرحال منت سے اسے اندر بھیجا۔ اجازت مل گئی۔ جب ہم اندر گئے تو سہراب مودی اور ان کی بیگم مہتاب دونوں بیٹھے تھے۔ یہ ہم کو دیکھ کر ہنسنے لگے کیوںکہ ان دنوں تمام ہندوستان سے فلموں کے رسیا لڑکے بھاگ کر بمبئی جایا کرتے تھے۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ یہ لڑکے بھی ایسے ہی ہیں۔ مہتاب مجھ سے پوچھنے لگی کہ لڑکے آپ پشاور سے آئے ہیں۔ میں نے کہا ہاں۔ کہنے لگی کہ فوراً واپس چلے جاﺅ اس شہر میں یوں نہ پھرو۔ یہاں آپ کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ایسا ہی کروں گا۔ مودی نے چائے منگوائی۔ ہم دونوں کو مہتاب نے اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پیش کی۔
میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس وقت میری عمر سترہ اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھی اور میں خوب صورتی کے لحاظ سے بڑا دل کش اور دل فریب لڑکا تھا۔ دونوں میاں بیوی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ دونوں نے سرگوشی کے عالم میں کچھ بات کی۔ پتہ نہیں کیا کہا۔ مودی پارسی النسل تھا۔ میرے خیال میں مہتاب مسلمان تھی۔
اب میں چاہتا تھا کہ فوراً پونا چلا جاﺅں۔ میں نے بدھن سے کہا کہ میرے دوست چلو بوری بندر ریلوے سٹیشن (بوری بندر بہت بڑا جنکشن ہے)۔ مجھے پونا جانے والی ٹرین پر سوار کراﺅ۔ چناں چہ جب ہم بوری بندر پہنچے تو شام کا وقت تھا۔ مجھے بدھن نے گاڑی پر سوار کرا کر الوداع کہا۔ بوری بندر سے کلیان جنکشن کوئی چالیس پچاس میل کے فاصلہ پر ہو گا۔ سورج غروب ہونے کے بعد گاڑی کلیا ن جنکشن میں پہنچی۔ یہاں یہ گاڑی کافی دیر رکتی ہے۔ کلیان سے ایک لائن جنوبی ہند کی طرف اور دوسری فرنٹیئر کی طرف جاتی ہے۔ میں گاڑی سے نکل کر پلیٹ فارم پر ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ پھر اٹھ کر گاڑی کے اندر اپارٹمنٹ میں ایک بینچ پر لیٹ گیا۔ تھکا ہوا تھا۔ اب یہاں سے میرا رومان شروع ہو رہا ہے جس کی کسک ابھی میرے دل میں پوری طرح موجزن ہے۔
میرے اپارٹمنٹ میں چار لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میرے خیال میں اسی گاڑی میں وہ بوری بندر سے آئی تھیں۔ آہستہ آہستہ کوئی گانا گا رہی تھیں۔ بڑی دل کش آواز تھی۔ ان میں سے ایک لڑکی اتنی خوب صورت تھی کہ پہلی نظر میں میرے ہوش و حواس بے کار ہو گئے۔ باقی تینوں لڑکیاں ملیح رنگ کی تھیں مگر یہ لڑکی سفید رنگت کی تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ کسی بڑے گھر کی لڑکی ہے۔ مجھ سے فاصلہ پر دوسرے بینچ پر چاروں بیٹھی گانا گا رہی تھیں۔ پھر یہ لڑکی بغیر کسی جھجک کے اُٹھ کر میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ مہاراشٹر میں وہاں بغیر رکاﺅٹ کے نوجوان لڑکی آپ سے مخاطب ہو جائے گی۔
اب ہم دونوں کا مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ اس لڑکی کا سراپا کچھ اس قسم کا تھا اور اس قدر خوب صورت تھی کہ بیان سے باہر، آواز تھی کہ جیسے گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ اس کا چہرہ، اس کے بال، اس کی آنکھیں، اس کی ناک، دانت غرض یہ کہ ایک ایک اعضا ورطہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ اس کے کس کس عضو کی تعریف کی جائے از سر تا پا قدرت کی صناعی کا بے مثال اور بے عیب نمونہ تھا۔ دیکھنے والا دیکھتا رہ جاتا تھا۔ اس کے ہاتھ اور پاﺅں سنگ مرمر کی طرح تھے غرض یہ کہ ایک مہتاب لڑکی تھی ۔ اسے دیکھ کر کہنا پڑتا تھا۔ فتبارک اﷲ احسن انی یقین
مجھ سے بلا جھجھک کہنے لگی: ”آپ سے بات کر سکتی ہوں؟“
”ضرور“۔ میں نے کہا۔ مگر میں سراسیمگی کی حالت میں تھا اس کے حسن بے مثال سے۔
”آپ کا نام“
”مجھے عاشق الٰہی کہتے ہیں۔ پرماتا سے محبت کرنے والا“۔ (یہ سن کر بہت ہنسی۔ میں نے نام کا ترجمہ بھی کر دیا)۔
”آپ کہاں سے آئے ہیں“۔ اس نے پوچھا۔
”پشاور سے“۔ میں نے جواب دیا۔
”آپ کہاں جا رہے ہیں؟“
”پونا جا رہا ہوں۔ وہاں میرے انکل گورہ پلٹن میں آفیسر ہیں۔“
کہنے لگی: ”میں بھی بمبئی سے آ رہی ہوں۔ بمبئی میں میرے باپو بہت بڑے آفیسر ہیں۔ آپ کی جات (ذات) کیا ہے؟“
”مسلمان ہوں“ میں نے جواب دیا۔
اب کچھ خاموش رہنے کے بعد پھر گویا ہوئی۔
”آپ نے شادی کی ہوئی ہے۔“
”نہیں۔ ابھی تو میں سترہ اٹھارہ سال عمر کا ہوں۔“
وہ اُردو میں بڑے ڈھنگ سے بات کر رہی تھی۔ کہنے لگی ”میرے باپو دہلی میں اسٹیشن ماسٹر تھے۔ اس لیے ہماری فیملی دہلی میں رہ چکی ہے۔ وہاں میں نے سکول میں اُردو اور انگلش کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اُردو شاعروں سے بھی دل چسپی ہے۔ غالب کو میں نے اچھی طرح پڑھا ہے۔“ میں نے ہنس کر کہا کہ غالب کا کوئی شعر سناﺅ۔ کہنے لگی:
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جِس کافر پہ دم نکلے
میرے منہ سے واہ واہ نکل گئی ۔ خوب ہنسی۔ میں حیران رہ گیا کہ مہاراشٹر کی لڑکی اور اتنے سلجھے ہوئے مذاق کی۔
میں نے پوچھا ”آپ کی تعلیم“ کہنے لگی ”دہلی میں اُردو اور انگلش پڑھی۔ ویسے ہندی بہت اچھی جانتی ہوں۔“
محبت کے اندھے دیوتا کیوپڈ نے دونوں کو اپنے تیر سے گھائل کر دیا تھا۔ ایک دو گھنٹے میں ہیر رانجھے میں سما گئی اور رانجھا ہیر میں سما گیا۔ ہمارا سفر غالباً صبح تک کا تھا اور ہمارا یہ مکالمہ رات دس بجے کے قریب ہو رہا تھا۔
گاڑی فراٹے بھری جا رہی تھی۔ باہر درخت، ٹیلے، ریل کی پٹڑی، مکان سب بھاگے جا رہے تھے۔ ادھر گاڑی کے اندر دو انسانوں کی زندگی میں ایک حسرت ناک تبدیلی آ رہی تھی۔ ان کی دنیا بدل رہی تھی۔ دوسری تینوں لڑکیاں غور سے ہماری سمت دیکھ رہی تھیں۔ پھر سرگوشی کے انداز میں مجھ سے کہنے لگی ”آپ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے جو میں بمبئی سے پکوا کر اپنے ساتھ لائی ہوں۔“ میں نے کہا ”ضرور کھاﺅں گا۔“ کھانا کافی مقدار میں تھا۔ ان دوسری لڑکیوں کو بھی اس نے کھانے میں شامل کر لیا۔ مچھلی تھی۔ کچھ مشروب بھی تھا۔ معلوم نہیں کیا مشروب تھا۔
میں نے کہا اب میں آپ سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔ کہنے لگی جو چاہیں پوچھ لیں۔
”آپ کانام“
”اوشا“
”آپ کی ذات“
”مرہٹہ“
”شادی شدہ ہو؟“ میں نے پوچھا۔
”ہرگز نہیں۔ ابھی میری عمر چھوٹی ہے۔ میں کوئی بیس سال کی ہوں“
”تعلیم“
”ہندی بہت اچھی جانتی ہوں، انگلش بھی جانتی ہوں، اُردو بھی جانتی ہوں“
میں نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا ”آج میرے ساتھ تمھاری ملاقات نہ ہوتی تو بہتر تھا۔ میری زندگی میں بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔“ کہنے لگی ”آج ہمارا ملنا پرماتما کو منظور تھا۔ آپ کی دنیا میں انقلاب آ رہا ہے تو کیا میری دنیا میں نہیں آیا ہے۔“ پھر میں نے اس سے پوچھا ”مہاراشٹر میں تم لوگ نوجوان لڑکیوں کو غیرمرد سے یوں کھلم کھلا ملنے سے روکتے نہیں۔“ کہنے لگی ”نیت صاف ہو تو کوئی بات نہیں ہم لوگ بُرا نہیں مناتے۔“
کہنے لگی ”افسوس آپ مسلمان ہیں اور میں ہندو ہوں۔ ہمارا آپس میں ملنا ناممکن ہے۔ مرہٹہ لڑکی ہوں۔ بات بنتی نظر نہیں آتی۔“ میں نے آہستہ سے کہا ”اگر میرے ساتھ پنجاب چلی جاﺅ۔“ کہنے لگی ”ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ میرا باپو مجھے ڈھونڈ نکالے گا اور پھر زندگی سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔“ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ بڑی موٹی موٹی آنکھیں تھیں۔ آم کی دو قاشیں۔ لڑکی کیا تھی زمین پر حور اُتر آئی تھی۔
حسن کی انتہا نہیں جلوہ دل ربائے ناز
حسن میں ایک چیز ہے اور بھی ماورائے ناز
حسن ہے سرفراز عیش حسن ہے پیکر نشاط
عشق ہے پامال غم عشق ہے خاک پائے ناز
میاں محمد بخشؒ نے اپنی کتاب سیف الملوک میں کہا ہے:
جادوگر دو نین کوڑی دے پل وچہ کہتا مائل
مائل دی کی گل محمد ہو گیا دل گھائل
اچی لمبی نازک گوری نرم چنے دی ڈالی
ناز انداز تے آن کرشمہ صفت خداوند والی
رنگ گلابی انگ حسابی چہرہ وانگ مہتابی
جُسّے تھیں خوشبوئیں ملے اکھیں مست شرابی
دو چار گھنٹوں میں بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔ پھر میرے اور نزدیک ہو کر کہنے لگی۔” آپ نے میری زندگی کا ناش (ستیاناس) کر دیا ہے“ ۔ اور مجھ پر گویا سکتہ کا عالم تھا۔ میں ششدر خاموش بیٹھا ہوا تھا۔کہنے لگی:
”اب میرا سٹیشن نزدیک آ رہا ہے۔ آپ میرے ساتھ میرے گاﺅں (چاندنگر) چلیں گے۔ آپ کو سیر بھی کراﺅں گی اور چند دن آپ کے ساتھ خوشی سے گزاروں گی، پھر چلے جانا مجھے روتا چھوڑ کر۔“
میں نے کہا:
”مرہٹہ لوگ سخت ہوتے ہیں۔ میری جان کو خطرہ ہو گا۔“
کہنے لگی:
”نہ ….نہ…. ایسا مت کہیں…. آپ کو بڑی عزت سے رکھوں گی۔“
گاڑی چلی جا رہی تھی۔ درخت، مکان، پٹڑی، ٹیلے، جھاڑیاں سب بھاگے جا رہی تھیں۔ میں حیران تھا۔ میں پریشان تھا۔ سپیدہ¿ سحر نمودار ہو رہا تھا۔ اوشا کا اسٹیشن آ گیا تھا۔ گاڑی آہستہ ہو گئی اور پھر کھٹ سے کھڑی ہو گئی۔ اوشا بھی کھڑی ہو گئی۔ میرا کیس اور اپنا بیگ دونوں اُٹھا لیے۔ میں نے اپنا بریف کیس اس سے لے لیا۔ ہم دونوں گاڑی سے نیچے اُترے۔ مہاراشٹر میں رکشہ چلتا ہے، جسے آدمی کھینچتا ہے۔ سوار دو آدمی ہی ہوتے ہیں۔ تین نہیں بیٹھ سکتے۔
ہم چاند نگر میں جا پہنچے۔ چوپال میں رکشہ کھڑا ہو گیا۔ ہم اُترے۔ میدانی جگہ تھی۔ گاﺅں کی نوجوان لڑکیاں ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگیں اور ادھر اوشا کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی بادشاہ محاذ جنگ سے کامیاب و کامران ہو کر واپس آتا ہے۔ میرے ساتھ بڑے عجیب انداز سے چل رہی تھی۔جب اس کی ماں نے اوشا سے پوچھا تو اوشا نے کہا کہ ماتاجی یہ پشاور سے آئے ہیں ۔ پشاور بہت دُور جگہ ہے اور یہ میرے فرینڈ ہیں کوئی غلط بات نہیں ہے۔
میں دل میں خوف زدہ تھا کہ کوئی غلط بات نہ ہو جائے مگر اوشا نے مجھے تسلی دی کہ آپ اطمینان رکھیں ۔ کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے۔
پورے دس دن تک اوشا نے مجھے اپنے پاس رکھا۔ ہر طرح کی سیر کرائی۔ ایک دن کہنے لگی : ” آپ پونا میں شیواجی کا جنم استھان ضرور دیکھنا “۔ میں نے اسے کہا کہ ” میں اس نام سے واقف ہوں۔ وہی شیوا جی جس نے اورنگ زیب عالمگیر کے جرنیل افضل خان کو مصافحہ کرتے وقت چھری سے مار ڈالا تھا۔“ ہنس ہنس کر کہنے لگی ”ہاں وہی! شیواجی مرہٹہ ہمارا ہیرو مرہٹہ ہے“۔
جس دن ہم چاند نگر پہنچے دوسرے دن کہنے لگی کہ ”آپ مرغی کھانا پسند کرتے ہیں۔“ میں نے کہا ”ضرور مگر مرغی کو میں خود ذبح کروں گا۔“چناں چہ وہ مرغی پکڑ کر لائی۔ چھری مجھے دی۔ میں نے اس کے سامنے مرغی کو ذبح کیا۔ بڑے غورسے دیکھتی رہی۔ میں نے کہا کہ ”ہم اس طرح ذبح کر کے کھاتے ہیں۔“ اب مجھے یہاں رہتے ہوئے دس دن ہو گئے تھے۔ میں نے اوشا سے کہا کہ ”میں اب جانا چاہتا ہوں“۔ بڑی پریشان ہوئی ۔ رونے لگی۔ آنکھوں سے ندیاں پھوٹ پڑیں۔ جب آنسو تھمے تو کہنے لگی کہ ”عاشق الٰہی! مجھے بھول نہ جانا“ ۔پھر یک بیک کہنے لگی کہ ”ادھر آﺅ کوئی خاص بات کرنی ہے۔“ میں نے سوچا نہ معلوم کیا بات کرے گی۔علیحدہ جا کر کہنے لگی کہ ”میں آپ کے ساتھ چلی چلوں گی اگرچہ میرا باپو وسیع تعلقات کا آدمی ہے۔ دہلی میں ریلوے اسٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر رہا ہے۔ پشاور تک رسائی ہے“۔ میں اس کے اس ارادہ کو سُن کر خو ف زدہ ہو گیا اور اسے دلاسا دے کر کہا کہ پیاری اوشا یہ خطرناک کھیل ہے بہت خطرناک…. ایسا نہ سوچو…. میری طرف غور سے دیکھنے لگی او رکہنے لگی ”پھر کیا کروں؟“ میں نے کہا کہ ”صبر کرو۔ میں پھر آ جاﺅں گا تمھاری ملاقات کے لیے۔ اور خط و کتابت جاری رکھنا۔ خط ضرور لکھتی رہنا۔“ اوشا نے میرا پتہ لے لیا اور میں نے اس کا پتہ لے لیا۔
پھر ….ایک دن صبح رکشا پر ہم دونوں ریلوے اسٹیشن پر آئے۔ بڑی دیر کھڑی مجھ سے باتیں کرتی رہی۔ میرے ہاتھوں پر منھ سے بوسے دیے۔ پھر کہنے لگی ”آپ سوار ہو جائیں۔“ گاڑی آہستہ آہستہ چل پڑی۔ میں دروازے پر کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ دُور سے ہاتھ ہلا رہی تھی اور آہستہ آہستہ مدھم ہو رہی تھی۔ آخر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
اوشا سے جدا ہونے کے بعد…. ٹرین میں بڑی کشمکش کی حالت میں رہا۔ اگر میں ذرا دلیری دکھاتا تو وہ میرے ساتھ آ جاتی۔ ضرور آ جاتی۔
اوشا کی محبت سرخ آندھی کی طرح تند و تیز اور جان بوجھ کر اسے ہاتھوں میں کھو دینا اس لیے کہ اوشا کی بھلائی اسی میں تھی۔ گاڑی پونا اسٹیشن پر پہنچی تو میں پلیٹ فارم پر ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ کیا خبر کتنی دیر بیٹھا رہا۔ میری زندگی غم کے اندھیروں میں ڈوب رہی تھی۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔
اوشا سے جدا ہونے کے بعد میں مسلسل ایک اذیت ناک زندگی کے حصار میں گرفتار ہو گیا تھا جو اتنے طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی موجود ہے۔ مگر میں اب اس غم زدہ زندگی کا عادی ہو چکا ہوں۔ بل کہ یہ دائمی غم میرے لیے ایک لذت کا احساس پیدا کر رہا ہے۔ اب بھی ایک طویل عرصہ سے اس کی محبت کے خواب دیکھ رہا ہوں۔ اس کے خطوط میرے پاس آتے رہتے تھے او ر میں بھی اسے خط کا جواب دے دیتا تھا۔ اس نے میرا ایڈریس لیا تھا اور اپنا مجھے دے دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار اس نے اپنا تازہ فوٹو مجھے بھیجا تھا۔ پتہ نہیں وہ فوٹو اور اس کے خطوط کیسے گم ہو گئے اگرچہ میں نے وہ بڑی احتیاط سے محفوظ کیے ہوئے تھے۔ ایک خط تہران میں مجھے ملا تھا کیوںکہ میرا فوجی ایڈریس اس کے پاس تھا جو میں نے خط میں اسے دیا تھا جب کہ میں سنگاپور گیا تھا۔
میری اور اوشا کی خط و کتابت 1942 ءتک بدستور جاری تھی۔ کبھی کبھی جب تنہائی میں ہوتا ہوں تو گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہوں۔ آئرش شاعر ٹامس مورس کی ایک نظم کا پہلا بند ہے جسے نادرکاکوروی نے ترجمہ کیا ہے:
اکثر شبِ تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دل چسپیاں بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع¿ زندگی اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دلِ صد چاک پر …. …. ….
ایسے میں میری رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹ جاتی ہے ۔ اوشا میرے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے اور اسی دل کش انداز میں ہنس ہنس کر مجھ سے باتیں کرتی ہے۔ مجھے اپنا جوانی کا وہ زمانہ بھی یاد آ جاتا ہے۔ ایسے میں میری حالت بڑی حسرت ناک اور قابلِ رحم ہو جاتی ہے۔ میں بڑی کوشش کرتا ہوں کہ اسے بھول جاﺅں مگر بقول : ”جو ایک بار بھلاﺅں تو لاکھ بار آئے“۔
اور یہ حقیقت ہے کہ میں اس سے بھاگتا پھرتا ہوں کہ وہ مجھے اب یاد نہ آئے مگر چھپ نہیں سکتا۔ وہ مجھے تلاش کر لیتی ہے اور پھر سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ حالاں کہ اتنا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ جوانی گئی، بڑھاپا آیا۔ بڑھاپا بھی آخری حدود کو چھُو رہا ہے۔ اس کا حسن زاہد فریب سامنے ہی رہتا ہے۔ میں اب بھی اس رات کی تلاش میں رہتا ہوں جس رات اوشا کو ریل گاڑی میں کلیان جنکشن پر پہلی بار دیکھا تھا۔
خوش حالی، مسرت اور کامرانی قدرت کی تخلیق کے تین نام ہیں۔ اس تخلیق کا مزاج اور تانا بانا پائیدار ہو سکتا ہے مگر حساس نہیں ہے۔ لیکن غم قدرت کی ایسی تخلیق ہے جو بہت پائدار ہے۔ خیالوں کی دُنیا میں ذرا سی جنبش آئے تو غموں کے تانے بانے میں دُور رس ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔ غم ایسا ناسور ہے جو رَستا ہی رہتا ہے۔ اہلِ دل جانتے ہیں کہ جہاں غم اور دُکھ ہے وہاں تقدس اور پاکیزگی بھی ہے۔ جو لوگ اِس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے وہ زندگی سے بیگانہ ہیں۔ ورڈزورتھ نے جب کہا تھا کہ دُکھ آتے تو جاتے ہی نہیں۔ دکھ کی فطرت میں جس قدر تاریکی ہے اسی قدر دوا بھی ہے۔ دیکھیے شاعر نے کیسی عمدہ بات کہی ہے:
ڈانٹے کا فلسفہ غم یہ ہے کہ دُکھ اور درد، رنج و الم انسان اور خدا کا رشتہ مضبوط تر بنا دیتے ہیں۔ جس انسان کے تمام سہارے ایک ایک کر کے رخصت ہو جاتے ہیں تو اس وقت رحمتِ خداوندی آگے بڑھتی ہے اور اس غم زدہ انسان کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اس کی ہر التجا کو قدرت غور سے سُنتی ہے۔
جرمنی کا فلسفی شاعر گوئٹے کہتا ہے:
جس نے رنج و غم نہ دیکھا
نیم شب کی آہیں نہ بھریں
صبح کو نالے نہ کیے
اے خدا!
وہ تیری قوت کو کیا جانے
میں گوئٹے کی بات کو سمجھنے سے قاصرتھا اور سطحی طور پر غور کرتا تھا۔ مگر اب جب کہ اوشا کے غم نے میری زندگی میں ہر جانب حسرت ہی حسرت بکھیر دی ہے تو اب اس کی بات ذہن میں سما گئی۔ اس کا مطلب اور اس کی گہرائی کو سمجھ سکا ہوں۔ غم ہر دقیق سے دقیق فلسفہ کو سمجھا دیتا ہے۔ میں اب جان سکا کہ غم انسانی حیات اور جذبات میں سب سے اہم اور سب سے بڑا جذبہ ہے۔ افسوس کہ میری ساری جوانی اور میرا سارا بڑھاپا اوشا کے غم میں گزر گیا ہے مگر اس جذبہ نے بل کہ یوں کہو کہ اوشا کی لازوال اور بے مثال محبت نے میرے ذہن کے گو نا گوں دریچے کھول دیے ہیں۔ مجھے اب غم کے سوا اور کوئی شے نظر ہی نہیں آتی۔ میں اب یہ سمجھتا ہوں کہ اوشا کا غم نہ ہوتا تو مجھ پر قدرت کے کئی سربستہ راز نہ کھل پاتے۔ گویا میرے لیے اوشا قدرت کے مخفی راز سمجھنے کا ایک نردبان ہی تو ثابت ہوئی ہے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ اوشا زندہ ہے یا مر گئی ہے کیوںکہ 1942 ءتک اس کی میرے ساتھ خط و کتابت رہی ہے اس کے بعد بند ہو گئی۔
میں اب اُس رات کی تلاش میں سرگرداں ہوں جس رات کلیان جنکشن پر پہلی بار اوشا کو ریل گاڑی میں دیکھا تھا۔
وہ میرے نہاں خانہ دل میں آئی بھی اور چلی بھی گئی۔
(بشکریہ : مشتاق شناس از ڈاکٹر محمد وسیم انجم)