ایک تیز ٹیس کندھے سے اُٹھی۔ میں نے کرتے کے گریبان سے ہاتھ اندر کندھے پر لگایا۔ انگلیاں خون سے بھر گئیں۔ میں نے کرتا اُتارا، گلی کی نکڑ پر لگے سرکاری نل کی طرف بھاگا۔ وہاں پانی بھرنے والے بچوں کی قطار لگی تھی جو بالٹیاں اٹھائے نل کے قریب پہنچنے کی دھکم پیل میں لگے تھے۔ خون بہتا دیکھ کر سب پیچھے ہوئے اور مجھے جگہ دی۔چھوٹے بچوں نے شور مچا دیا۔ میں نے انہیں خاموش ہونے کا کہا مگر اتنی دیر میں چند چھوٹی بچیاں اپنے گھروں کی طرف بھاگیں۔
لو ایک نیا مسئلہ۔ بلکہ سکینڈل۔ چوٹ کیسے آئی؟ فوری جواب سوچنا ہو گا ورنہ جمیلہ امی مجھے زندہ دفن کر دے گی۔ رات ہو چلی تھی۔ بچے اس وقت گلی سے گھروں میں جانے لگتے ہیں پرندوں کی طرح۔
میں کہاں جاتا۔ بڑ کے بڑے درخت کے نیچے آ بیٹھا۔ موچی اپنی دکان بڑھا کر جا چکا ہے۔ رات کو بچے ڈرتے اس درخت سے دُور رہتے۔ اگرچہ میں بھی ڈرتا تھا پھر بھی وہاں بیٹھ گیا۔ رات میرے نصیبوں جیسی سیاہ۔ آنسو پھر سے بہنے لگے۔ میں روتا رہا…. روتا رہا۔ میرے آنسوﺅں کی جھیل خشک ہو گئی۔ نیچے میرے حالات کی دلدل میں نصیب کی نفرتوں، ذلتوں کی تلچھٹ تھی۔ میری محرومیوں کی کنکریاں۔ ایسی سوکھی جھیل کنارے بیٹھنے کا کیا فائدہ؟ میں یہ گھر یہ شہر سب چھوڑ دوں گا۔ ورنہ سوتیلی امی میری زندگی اجیرن کر دے گی۔ میں تصور میں اُڑتا اُڑتا اپنی گلی سے اگلی، اس سے اگلی، مزید گلیاں، آگے میدان، میدان کے پار بڑا بازار، بازار کے ساتھ بڑی سڑک…. لاری اڈا۔ وہاں سے میرا محلہ، گلی سب اوجھل۔
میرا گھر؟ پیچھے گھپ اندھیرے میں۔ جہاں اس وقت لوٹ کے جانا دوبھر ہو چلا تھا۔ کیا کروں؟ بے بسی سے آنکھیں دوبارہ بھیگنے لگیں۔ اچانک کاندھے پہ دباﺅ کا احساس ہوا۔ میں اُچھل پڑا۔ دل حلق میں آ گیا۔ کون؟
”میں“ ابے کی گلوگیر آواز سنائی دی۔
ہم دونوں کچھ بولے بنا ساتھ ساتھ چلتے گھر کی طرف چل دیئے۔ دروازے کے پاس پہنچ کر میرے قدم رُک گئے۔ ابا نے بازو سے پکڑ کر مجھے ایسے کھینچا جیسے قربانی کے بکرے کو قصائی رسی سے پکڑ کر کھینچے۔ میں دروازے کے دوسری جانب قربان گاہ میں جانے پہ رضامند نہ تھا۔
اچھا ہوا کہ دروازہ بند تھا۔ ابا نے مجھے اپنے ساتھ دہلیز پر بٹھا لیا۔ اپنا بازو میرے کندھے سے گھما کر میرے گلے میں حائل کر دیا۔ یاد نہیں اس سے پہلے اس نے ایسا کب کیا۔ ہاں یہ یاد ہے کہ قصبے میں سرکس ائی تھی۔ محلے کے سب لوگوں کے ساتھ ہم بھی گئے۔ سرکس کے جھولے پر میں اسی طرح ابا کے ساتھ لپٹا بیٹھا تھا۔ ڈرا سہما سا۔ آج کی طرح۔
شفقت کے لیے ترسا میرا وجود کانپنے لگا۔ میری ہچکیاں از سرِ نو تیز ہوئیں۔ میں نے فرطِ جذبات میں اپنا سر باپ کی گود میں ڈال دیا۔ اس نے مجھے پچکارہ۔ گالوں پہ تھپتھپایا۔ بولا ”اتنا غصہ؟ ایسے نہیں کرتے میرے بچے۔ تم کتنے بہادر ہو۔ دل چھوٹا نہ کرو“۔
میرے آنسوﺅں کے پیچھے سے سالوں کے ان کہے شکوﺅں کا لاوہ بہنے لگا۔ تشنہ لب تمناﺅں کی چنگاریاں اُٹھنے لگیں۔
”ابا! میں آگے نہیں پڑھوں گا۔ مجھے سبزی منڈی والے دوست سے کہہ کر وہاں نوکری دلا دو“۔
”سامان ڈھو گے؟“ ابا نے اوپری سی پھیکی ہنسی ہنس کر پوچھا۔
”جی۔ رات اُدھر منڈی کے تھڑے پر سو رہوں گا۔ گھر واپس نہیں آﺅں گا“۔
”حوصلہ پُتر۔ بزدل نہ بن۔ تُو نے بہت پڑھنا ہے۔ بڑا افسر بننا ہے۔ تیرا باپ جس بڑے صاحب کا چپڑاسی ہے تو اس کے اوپر کی پوسٹ کا افسر یعنی چیئرمین بننا۔اتنی خداداد ذہانت کیا سبزی اور اناج کی بوریاں ڈھونے میں ضائع کرو گے؟ اگلے ماہ آٹھویں کا وظیفے کا امتحان ہے۔ دل لگا کر تیاری کرو“۔ ابے نے میری روتی آنکھوں میں جھانکا۔ شاید پہلی بار….
”سوچو تیرا ابا تیرے بنا کیسے جیئے گا؟“ اس نے مجھے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔
میرے اندر خوشی سے پھلجڑیاں پھوٹ پڑیں۔ بہتا لاوہ یکایک سرد ہوا۔ اس کے اوپر ہریالی اُگنے لگی۔ سُبکیاں میرے سینے کے زیروبم میں دم توڑنے کے بعد تھم گئیں۔
ابا نے ہاتھ میں فرسودہ لکڑی کی دہلیز پر ایسے تھپکی دی جیسے چاچا تانگے والا صبح تانگہ جوتتے اپنے مریل گھوڑے کو دیتا تھا۔
گھر واپس کیسے نہیں جانا؟ ارے پگلے! یہ جو گھر کی دہلیز ہوتی ہے نا۔ یہ چاردیواری کی پناہ گاہ ہوتی ہے۔ ایک طرف گھر اور اس کے دوسری طرف باہر کی ساری دنیا۔ یہ رکاوٹ اور حفاظت ہے۔ باہر کی دنیا سے رابطہ ہے۔ تمہاری ماں کے انتقال کے بعد میں اکثر اکیلا دیر تک یہاں بیٹھا کرتا۔ یہ دہلیز میرے خاموش دکھوں اور یادوں کی امین ہے۔ دہلیز دروازے جیسی روک اور پابندی نہیں لگاتی۔ جو پل بھر میں کھلنا بند ہوتا ہے۔ اس کی سرشت میں عجلت نہیں۔ یہ آتے جاتے راستہ نہیں روکتی۔ میزبان ہے۔ فراخ دل ہے۔ مہربان ہے۔ آپ کو رکنے، سستانے، سوچنے کی گنجائش دیتی ہے۔ جانے کو نہیں کہتی“۔ ابا کھو گیا۔ یادوں کے تحائف لیے انہیں دل کے دروازے تک لے آیا۔ ”انسان کے اندر دل کا دروازہ ہے۔ دروازہ بند کرنے سے دل تنگ اور کھلا رکھنے سے فراخ ہوتا ہے۔ دل بولتا، لڑتا، مناتا، روٹھتا، پیار کرتا اور نجانے کیسے کیسے اظہار کرتا ہے۔ بے چین، بے سکون مصروف۔ اس کا دروازہ ہر پل جذبوں کی شورش سے کبھی کھلتا، کبھی بند ہوتا۔ جبکہ اس کی دہلیز سوچوں کو پہنچتی ہے۔ یہاں دل محض دھڑکتا اور چپ کی زبان بولتی اور سنتی ہے۔ فیصلے ہوتے ہیں۔ خیر تم چھوٹے ہو۔ کیا سمجھو گے“۔
واقعی مجھے کچھ پلے نہ پڑا۔ ابا سے ہمدردی محسوس ہوئی۔ کیا وہ بھی میری طرح دُکھی ہے؟ میں اسے تسلی دینا چاہتا تھا مگر کیسے؟ نہ اظہار اور نہ ہی عملی طور کچھ کر سکنے کے قابل۔ شدت جذبات سے آنکھیں ایک بار پھر بھیگنے لگیں۔
”ابا! فکر نہ کرو۔ میں خوب محنت سے پڑھوں گا۔ ایک دن بہت بڑا افسر اور امیر آدمی بنوں گا“۔
میں نے اپنے دونوں بازو پھیلا کر بڑا آدمی بننے کی وضاحت کی۔
”شاباش پُتر! یاد رکھنا کہ صرف امیر بننے سے انسان بڑا آدمی نہیں ہو جاتا۔ دونوں میں فرق ہے یاد رکھنا “۔
مجھے ابا کی یہ بات پسند نہ آئی۔ اس وقت میرا آئیڈیل امیر آدمی ہی تھا۔ کیا فرق ہے دونوں میں؟ میں کنفیوژ ہو گیا۔ ابا کی بات جاری رہی۔
”جمیلہ کے آنے سے گھر کے اندر زندگی تو ضرور آئی ساتھ ہنگامہ خیزی بھی۔ میں نے ہمیشہ سکون تلاش کیا اس دہلیز کی پناہ گاہ میں، بند دروازے کی اوٹ میں، یہاں آ کر شور تھم جاتا ہے۔ خاموشی سے سنو تو اپنے اندر کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اندر کی آوازیں نہ سننا چاہو تو اندر باہر چُپ کا پہرہ لگا دو“۔
ہم دونوں کچھ دیر مکمل خاموشی میں بیٹھے رہے۔ قدرے توقف کے بعد وہ بولا۔
”تمہیں سردی لگ رہی ہے۔ میری چادر کی بُکل میں آ جاﺅ“۔
ابا نے اپنی چادر کا سر اٹھا کر میرے لیے جگہ بنا دی۔ میں گویا جنت میں آ گیا۔ اتنی محفوظ پناہ گاہ۔ کاش روز ابا مجھے ایسے ہی پیار سے ساتھ لگائے۔ میرا احساس کرے۔ آج کی ساری شفقت اور توجہ کا سہرا جمیلہ لڑاکی امی کے سر بندھتا ہے۔ اس کی سفاکی اور چالاکی کے طفیل میرا باپ اس سمے مجھے ساتھ چمٹائے بیٹھا ہے۔
”یہ چادر کافی بوسیدہ ہے“۔ میں نے ڈرتے ڈرتے بے تکلفی جتائی۔ ایسی انمول گھڑی کب مقدر میں ہو؟ یہ اپنا پن؟ احساس کے
جلتے دیپ۔
سب کتنا انوکھا۔
”ہاں! کافی پرانی ہے۔ گزارے موافق سہی۔ ہاہا“ ابے نے مصنوعی سی ہنسی ہنسی۔
”آپ میرا کوٹ لے لو۔ مجھے نہیں پہننا۔ میرے ناپ کا نہیں“۔ میں نے ہمدردی جتائی۔ کوٹ کی کہانی سنانے کی ہمت نہ ہوئی۔ ابا کا دل بُرا ہوتا۔
”نہیں بیٹا میرا گزارا ہو رہا ہے۔ زیادہ ٹھنڈ ہو گی تو پرانا کوٹ بھی ہے۔ کوٹ کے اوپر سے چادر کس کے لپیٹ لیتا ہوں۔ ارے بھائی چادر کی بُکل کا اپنا مزا ہے۔ نری گرمائش“۔
باپ کی شفقت اور بے تکلفی نے میری جھجک دور کی۔ برسوں سے ذہن میں کُلبلاتا سوال زبان پر آ گیا۔
”ابا! مامتا کی گرمائش کیسی ہوتی ہے؟ میری ماں کی کوئی چادر یا شال تو ہو گی؟“
ابا نے ایک بار پھر مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ اس کے دو گرم آنسو میرے گالوں پہ ٹپکے۔میں نے دانستہ انہیں صاف نہ کیا۔ کتنے انمول آنسو تھے وہ۔ آج تک ان دو آنسوﺅں کی نمی میرے گالوں سے چپکی ہے۔ شروع میں جب گھر چھوڑنے کے بعد اکثر انگلی کی پور سے چہرے کی اس جگہ کو سہلاتا۔ اس وقت کو یاد کرتا۔
”تمہاری ماں سلیقہ مند عورت تھی۔ ہمدرد اور کفایت شعار۔ تمہاری پیدائش کے بعد اس نے فرمائش کی کہ اس خوشی کے موقع پر کپڑوں کے نئے جوڑے کے بجائے اتنی قیمت میں اسے نئی گرم چادر خرید دوں۔ لوگ مبارک باد دینے آتے ہیں۔ اچھا لگے گا کہ اپنے پیارے سے بچے کو نئی گرم شال کے اندر لے کر بیٹھوں گی۔ جس روز اس نے چھلا نہایا۔ وہ دُھلے صاف سوٹ کے اوپر نئی سرخ گرم شال اوڑھے تمہیں گود میں لیے صحن میں آئی۔ سلیقے سے سر پہ اوڑھی سرخ چادر کے کنارے طلے کی سنہری کڑھائی سے مزین تھے۔ چادر کے اندر جا بجا طلہ کے پھول، بُوٹی۔ وہ صحن میں کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر مامتا کا روپ دمک رہا تھا۔ مجھے لگا قصبے کے گرجے سے مقدس مریم کا مجسمہ نکل کر میرے آنگن میں ایستادہ ہو گیا ہو…. خالدہ بڑی حسین اور سندر تھی….“ ابا اُداس یادوں میں کھو گیا۔ بات جاری رکھی۔
”اس کی موت کے بعد زندگی اُداس تو ہوئی ساتھ مشکل بھی ہو گئی۔ زندگی کا پہلا ساتھی داغِ مفارقت دے گیا۔ ایک معصوم بچہ۔ اس کی پرورش۔ پیسے والا ہوتا تو آیا رکھتا۔ دوسری شادی کرتا تو تمہیں اچھے بورڈنگ سکول ڈال دیتا۔ ایسا میری پہنچ سے باہر رہا۔ اول اول اکثر پہروں یہاں اکیلا بیٹھا کرتا۔ تمہیں گود میں لیے۔ کبھی جمیلہ کا چچا یا سجاول کا والد ساتھ ہوتے۔ جمیلہ کے آنے کے بعد بھی یہ عادت برقرار رہی۔“
میرے ذہن میں بے وقت کئی سوال اٹھ رہے تھے۔ باپ کی کھوئی سی شفقت پانے کا قیمتی لمحہ اس وقت میری گرفت میں تھا۔ بہت کچھ کہنا چاہا۔ کہہ نہ سکا۔ پوچھنا ہی غنیمت جانا۔
”ابا! مقدس مریم تو عیسائیون کی ہے۔ میری ماں تمہیں ایسی کیوں لگی؟“
”اوہ میرے عقلوں والے پُتر! سارے پیغمبر مسلمان تھے۔ ہم سب کو مانتے ہیں۔ وہ ایک مثال دی تمہیں۔سر سے پاﺅں تک اوڑھنی میں لپٹی، بچہ گود میں لیے، چہرے پہ نور، ذہن میں یہی مثال آئی“۔ ابا نے میرے گال پر پیار کیا۔ مجھے سارے سوالوں کے جواب جاننے تھے۔ سو پوچھا۔ ”کیا میری ماں کی نشانی وہ لال شال ابھی تک گھر میں ہے؟“ اس اچانک سوال نے ابا کو مشکل میں ڈال دیا۔ وہ مضطرب سا ہو گیا۔
”تمہاری ماں چیزیں سنبھال کر رکھتی تھی۔ میں جمیلہ سے پوچھوں گا۔“
”نہ نہ اس سے مت پوچھنا۔ وہ ہم دونوں کو مار دے گی“۔ میں نے بے ساختہ کہا۔
”اوہ“ ابا مختصر سا بول کر خاموش ہو گیا۔ شاید میری رائے کی تائید میں۔
کچھ دیر ہم دونوں خاموشی میں اپنی سوچوں کو پڑھتے رہے۔ شرط لگائیں کہ ہم دونوں کی سوچ ایک نقطے پر مرکوز تھی۔ اس وقت ایک ہی ہستی کے
”ہاں! کافی پرانی ہے۔ گزارے موافق سہی۔ ہاہا“ ابے نے مصنوعی سی ہنسی ہنسی۔
”آپ میرا کوٹ لے لو۔ مجھے نہیں پہننا۔ میرے ناپ کا نہیں“۔ میں نے ہمدردی جتائی۔ کوٹ کی کہانی سنانے کی ہمت نہ ہوئی۔ ابا کا دل بُرا ہوتا۔
”نہیں بیٹا میرا گزارا ہو رہا ہے۔ زیادہ ٹھنڈ ہو گی تو پرانا کوٹ بھی ہے۔ کوٹ کے اوپر سے چادر کس کے لپیٹ لیتا ہوں۔ ارے بھائی چادر کی بُکل کا اپنا مزا ہے۔ نری گرمائش“۔
باپ کی شفقت اور بے تکلفی نے میری جھجک دور کی۔ برسوں سے ذہن میں کُلبلاتا سوال زبان پر آ گیا۔
”ابا! مامتا کی گرمائش کیسی ہوتی ہے؟ میری ماں کی کوئی چادر یا شال تو ہو گی؟“
ابا نے ایک بار پھر مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ اس کے دو گرم آنسو میرے گالوں پہ ٹپکے۔میں نے دانستہ انہیں صاف نہ کیا۔ کتنے انمول آنسو تھے وہ۔ آج تک ان دو آنسوﺅں کی نمی میرے گالوں سے چپکی ہے۔ شروع میں جب گھر چھوڑنے کے بعد اکثر انگلی کی پور سے چہرے کی اس جگہ کو سہلاتا۔ اس وقت کو یاد کرتا۔
”تمہاری ماں سلیقہ مند عورت تھی۔ ہمدرد اور کفایت شعار۔ تمہاری پیدائش کے بعد اس نے فرمائش کی کہ اس خوشی کے موقع پر کپڑوں کے نئے جوڑے کے بجائے اتنی قیمت میں اسے نئی گرم چادر خرید دوں۔ لوگ مبارک باد دینے آتے ہیں۔ اچھا لگے گا کہ اپنے پیارے سے بچے کو نئی گرم شال کے اندر لے کر بیٹھوں گی۔ جس روز اس نے چھلا نہایا۔ وہ دُھلے صاف سوٹ کے اوپر نئی سرخ گرم شال اوڑھے تمہیں گود میں لیے صحن میں آئی۔ سلیقے سے سر پہ اوڑھی سرخ چادر کے کنارے طلے کی سنہری کڑھائی سے مزین تھے۔ چادر کے اندر جا بجا طلہ کے پھول، بُوٹی۔ وہ صحن میں کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر مامتا کا روپ دمک رہا تھا۔ مجھے لگا قصبے کے گرجے سے مقدس مریم کا مجسمہ نکل کر میرے آنگن میں ایستادہ ہو گیا ہو…. خالدہ بڑی حسین اور سندر تھی….“ ابا اُداس یادوں میں کھو گیا۔ بات جاری رکھی۔
”اس کی موت کے بعد زندگی اُداس تو ہوئی ساتھ مشکل بھی ہو گئی۔ زندگی کا پہلا ساتھی داغِ مفارقت دے گیا۔ ایک معصوم بچہ۔ اس کی پرورش۔ پیسے والا ہوتا تو آیا رکھتا۔ دوسری شادی کرتا تو تمہیں اچھے بورڈنگ سکول ڈال دیتا۔ ایسا میری پہنچ سے باہر رہا۔ اول اول اکثر پہروں یہاں اکیلا بیٹھا کرتا۔ تمہیں گود میں لیے۔ کبھی جمیلہ کا چچا یا سجاول کا والد ساتھ ہوتے۔ جمیلہ کے آنے کے بعد بھی یہ عادت برقرار رہی۔“
میرے ذہن میں بے وقت کئی سوال اٹھ رہے تھے۔ باپ کی کھوئی سی شفقت پانے کا قیمتی لمحہ اس وقت میری گرفت میں تھا۔ بہت کچھ کہنا چاہا۔ کہہ نہ سکا۔ پوچھنا ہی غنیمت جانا۔
”ابا! مقدس مریم تو عیسائیون کی ہے۔ میری ماں تمہیں ایسی کیوں لگی؟“
”اوہ میرے عقلوں والے پُتر! سارے پیغمبر مسلمان تھے۔ ہم سب کو مانتے ہیں۔ وہ ایک مثال دی تمہیں۔سر سے پاﺅں تک اوڑھنی میں لپٹی، بچہ گود میں لیے، چہرے پہ نور، ذہن میں یہی مثال آئی“۔ ابا نے میرے گال پر پیار کیا۔ مجھے سارے سوالوں کے جواب جاننے تھے۔ سو پوچھا۔ ”کیا میری ماں کی نشانی وہ لال شال ابھی تک گھر میں ہے؟“ اس اچانک سوال نے ابا کو مشکل میں ڈال دیا۔ وہ مضطرب سا ہو گیا۔
”تمہاری ماں چیزیں سنبھال کر رکھتی تھی۔ میں جمیلہ سے پوچھوں گا۔“
”نہ نہ اس سے مت پوچھنا۔ وہ ہم دونوں کو مار دے گی“۔ میں نے بے ساختہ کہا۔
”اوہ“ ابا مختصر سا بول کر خاموش ہو گیا۔ شاید میری رائے کی تائید میں۔
کچھ دیر ہم دونوں خاموشی میں اپنی سوچوں کو پڑھتے رہے۔ شرط لگائیں کہ ہم دونوں کی سوچ ایک نقطے پر مرکوز تھی۔ اس وقت ایک ہی ہستی کے
بارے میں سوچ رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں نا۔ شیطان کو یاد کرو تو وہ حاضر…. ایسا ہی ہوا….
دھڑ سے دروازہ کھلا۔ جمیلہ بیگم نے باہر جھانکا۔ اسے زیادہ زحمت نہ ہوئی۔ ہم کواڑوں کے ساتھ ٹیک لگائے دہلیز پر بیٹھے مل گئے۔ میری آنکھیں اگر پیچھے لگی ہوتیں تو اس کے تیور دیکھ سکتا۔ تاہم کانوں نے کھُرچتی آواز سن لی۔ میرے بزدل باپ نے مجھے پرے دھکیلا۔ اس عورت کے ڈر سے بیٹے کو پھر سے اچھوت بنا دیا۔
”اندر کیوں نہیں آئے؟ ٹھنڈ اور اندھیرے میں سرنیواڑے پڑے ہو۔ کس کا سوگ منا رہے ہو؟ پہلے ہی زندگی میں کوئی خوشی نہیں۔ مزید نحوست کیوں پھیلاتے ہو؟ میری جھوٹی شکایتیں سن رہے ہو گے۔ توبہ کیسے کان بھرتا ہے تمہارے“۔ وہ گرجی۔ بہتان لگایا۔
”دروازہ بند تھا“۔ ابا نے معذرت خواہانہ لہجے میں جواب دیا۔ ساتھ ہی میرا ہاتھ چھڑایا اور تیزی سے اُٹھ کر اندر چل دیا۔
”تم جو کھلا چھوڑ گئے ۔ بند تو کرنا تھا۔ اگر کوئی کتا بلا اندر آ گھستا؟“ امی نے قہر آلود نظر میری طرف ڈالی۔ اندھیرے میں ابا کی طرح اُسے بھی میرے کرتے کے کندھے پر جما خون نظر نہ آیا۔ چاہتا تو گھنٹہ پہلے جب اس نے گلے لگایا تو بتا دیتا۔ رات دیر تک ابا اور اس کی تلخ کلامی کی آوازیں جاری رہیں۔
آسمان پر شام سے چھائے بادلوں نے رات ڈھلے اپنا رنگ جمایا۔ گھن گرج کے ساتھ موسلا دھار بارش۔ جمیلہ امی کی کرخت آواز اس میں دب گئی۔میں اس یادگار دن کی تھکن کو تکیے پہ ساتھ لیے لیٹ گیا۔ چند گھنٹے قبل ابا سے لپٹنا، اس کی گود میں سر رکھے سسکیاں بھرنا، ابا کے ہاتھوں کا شفیق لمس۔ پیار سے تھپکی دینا۔
ابا کی باتیں کیسی مشکل تھیں۔ چھوٹا موٹا عام سا بندہ کیسی گہریں باتیں کر گیا۔ صرف امیر نہیں بلکہ بڑا آدمی بننے کی تلقین؟نہ خود کے پلے پیسہ اور نہ میرے لیے چاہتا ہے۔ کیا جمیلہ امی کے ڈر سے؟ لو وہ تو ابھی سے میری کمائی کے انتظار میں بلی کی طرح چھیچھڑوں کے خواب دیکھتی ہے۔میں محلے کے سب سے قابل لڑکے کا تعلیم کے لیے ماہانہ وظیفہ لگاﺅں گا۔ سکینہ خالہ کی طرح۔
کتنا وظیفہ لگاﺅں گا؟ مناسب رقم بس اتنی کہ اسے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں۔
اپنے محلے میں بھلا اور کون ”امیر“ ہے؟ وہ چھچھورے شرجیل لوگ۔ دفع کرو اس کو شیخی بگارتا ہے کہ گھر بدلیں گے۔ میری بلا سے کل کے جاتے بے شک آج جائیں۔ ڈرائیور چاچا کے صاحب والے محلے میں جانے کی اوقات پھر بھی نہ ہو گی۔ ہاں البتہ میں وہاں گھر بناﺅں گا۔ گھر یعنی بڑا سا بنگلہ۔چوکیدار اور خانساماں ملازم ہوں گے ۔گاڑی، ڈرائیور بھی رکھوں گا۔ یہ سب ٹھیک ہے۔ چاچا کا صاحب امیر ہے۔ اور بڑا آدمی بھی۔ یوں ابا کی بات رہ جائے گی اور میری خواہش بھی۔ شیخ چلی کی پلاﺅ پکاتے مجھے نیند آ گئی۔سونے کے وقت سے پہلے۔
بارش برستی، بادل گرجتے اور وقفوں سے بجلی چمکتی رہی۔ بجلی کا کوندا لپکا۔ کوٹھری میں ایک لمحے کو روشنی پھیل گئی۔ میں سہم کر اٹھ بیٹھا۔ دل چاہا بھاگ کر ابا کے بستر میں جا گھسوں۔ یہ ممکن نہ تھا۔ میری تین ساڑھے تین سال کی عمر کے بعد سے ابا اجنبی سا ہو چکا۔ میں نے پرانا لحاف کَس کے اپنے اردگرد لپیٹا۔ اپنا سر بازوﺅں اور گھٹنے پیٹ کے ساتھ لگائے۔ بدن کپکپاتا رہا۔ ہلکی سی روشنی میں ایسے لگا کہ سرخ رنگ کی گرم شال اوڑھے ایک خوبصورت عورت گود میں بچہ اٹھائے کھڑی ہو۔ اس کی چادر کے کنارے روپہلے طلے کی تاروں سے کڑھے ہیں۔جس کا عکس عورت کے چہرے پر منعکس ہوتا ہوا ۔ چاند کے گرد ہالا ہو جیسے۔
”امی جی!“ میں نے عورت کے تصوراتی ہیولے کو پکارا۔
اس کے بعد گہری نیند میں ایسا سویا جیسے امی کی سرخ شال میں لپٹا ننھا بچہ۔
دھڑ سے دروازہ کھلا۔ جمیلہ بیگم نے باہر جھانکا۔ اسے زیادہ زحمت نہ ہوئی۔ ہم کواڑوں کے ساتھ ٹیک لگائے دہلیز پر بیٹھے مل گئے۔ میری آنکھیں اگر پیچھے لگی ہوتیں تو اس کے تیور دیکھ سکتا۔ تاہم کانوں نے کھُرچتی آواز سن لی۔ میرے بزدل باپ نے مجھے پرے دھکیلا۔ اس عورت کے ڈر سے بیٹے کو پھر سے اچھوت بنا دیا۔
”اندر کیوں نہیں آئے؟ ٹھنڈ اور اندھیرے میں سرنیواڑے پڑے ہو۔ کس کا سوگ منا رہے ہو؟ پہلے ہی زندگی میں کوئی خوشی نہیں۔ مزید نحوست کیوں پھیلاتے ہو؟ میری جھوٹی شکایتیں سن رہے ہو گے۔ توبہ کیسے کان بھرتا ہے تمہارے“۔ وہ گرجی۔ بہتان لگایا۔
”دروازہ بند تھا“۔ ابا نے معذرت خواہانہ لہجے میں جواب دیا۔ ساتھ ہی میرا ہاتھ چھڑایا اور تیزی سے اُٹھ کر اندر چل دیا۔
”تم جو کھلا چھوڑ گئے ۔ بند تو کرنا تھا۔ اگر کوئی کتا بلا اندر آ گھستا؟“ امی نے قہر آلود نظر میری طرف ڈالی۔ اندھیرے میں ابا کی طرح اُسے بھی میرے کرتے کے کندھے پر جما خون نظر نہ آیا۔ چاہتا تو گھنٹہ پہلے جب اس نے گلے لگایا تو بتا دیتا۔ رات دیر تک ابا اور اس کی تلخ کلامی کی آوازیں جاری رہیں۔
آسمان پر شام سے چھائے بادلوں نے رات ڈھلے اپنا رنگ جمایا۔ گھن گرج کے ساتھ موسلا دھار بارش۔ جمیلہ امی کی کرخت آواز اس میں دب گئی۔میں اس یادگار دن کی تھکن کو تکیے پہ ساتھ لیے لیٹ گیا۔ چند گھنٹے قبل ابا سے لپٹنا، اس کی گود میں سر رکھے سسکیاں بھرنا، ابا کے ہاتھوں کا شفیق لمس۔ پیار سے تھپکی دینا۔
ابا کی باتیں کیسی مشکل تھیں۔ چھوٹا موٹا عام سا بندہ کیسی گہریں باتیں کر گیا۔ صرف امیر نہیں بلکہ بڑا آدمی بننے کی تلقین؟نہ خود کے پلے پیسہ اور نہ میرے لیے چاہتا ہے۔ کیا جمیلہ امی کے ڈر سے؟ لو وہ تو ابھی سے میری کمائی کے انتظار میں بلی کی طرح چھیچھڑوں کے خواب دیکھتی ہے۔میں محلے کے سب سے قابل لڑکے کا تعلیم کے لیے ماہانہ وظیفہ لگاﺅں گا۔ سکینہ خالہ کی طرح۔
کتنا وظیفہ لگاﺅں گا؟ مناسب رقم بس اتنی کہ اسے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں۔
اپنے محلے میں بھلا اور کون ”امیر“ ہے؟ وہ چھچھورے شرجیل لوگ۔ دفع کرو اس کو شیخی بگارتا ہے کہ گھر بدلیں گے۔ میری بلا سے کل کے جاتے بے شک آج جائیں۔ ڈرائیور چاچا کے صاحب والے محلے میں جانے کی اوقات پھر بھی نہ ہو گی۔ ہاں البتہ میں وہاں گھر بناﺅں گا۔ گھر یعنی بڑا سا بنگلہ۔چوکیدار اور خانساماں ملازم ہوں گے ۔گاڑی، ڈرائیور بھی رکھوں گا۔ یہ سب ٹھیک ہے۔ چاچا کا صاحب امیر ہے۔ اور بڑا آدمی بھی۔ یوں ابا کی بات رہ جائے گی اور میری خواہش بھی۔ شیخ چلی کی پلاﺅ پکاتے مجھے نیند آ گئی۔سونے کے وقت سے پہلے۔
بارش برستی، بادل گرجتے اور وقفوں سے بجلی چمکتی رہی۔ بجلی کا کوندا لپکا۔ کوٹھری میں ایک لمحے کو روشنی پھیل گئی۔ میں سہم کر اٹھ بیٹھا۔ دل چاہا بھاگ کر ابا کے بستر میں جا گھسوں۔ یہ ممکن نہ تھا۔ میری تین ساڑھے تین سال کی عمر کے بعد سے ابا اجنبی سا ہو چکا۔ میں نے پرانا لحاف کَس کے اپنے اردگرد لپیٹا۔ اپنا سر بازوﺅں اور گھٹنے پیٹ کے ساتھ لگائے۔ بدن کپکپاتا رہا۔ ہلکی سی روشنی میں ایسے لگا کہ سرخ رنگ کی گرم شال اوڑھے ایک خوبصورت عورت گود میں بچہ اٹھائے کھڑی ہو۔ اس کی چادر کے کنارے روپہلے طلے کی تاروں سے کڑھے ہیں۔جس کا عکس عورت کے چہرے پر منعکس ہوتا ہوا ۔ چاند کے گرد ہالا ہو جیسے۔
”امی جی!“ میں نے عورت کے تصوراتی ہیولے کو پکارا۔
اس کے بعد گہری نیند میں ایسا سویا جیسے امی کی سرخ شال میں لپٹا ننھا بچہ۔
میری نگاہیں دروازے پر لگی رہیں۔ ابا آئے مجھے گلے لگا لے۔ ابا نہ آیا۔ کمی اس پیار کی تھپکی اور شفقت کی رہ گئی جو اس راتابا
کے ساتھ لپٹے میسر ہوئی۔
میں اندھیرے میں راستہ ٹٹولتا صحن میں نکل آیا۔ چاند کی زرد روشنی میں اُداسی گھلی تھی۔ بے چینی بڑھی۔ میں دروازہ کھول کر باہر آیا۔ گلی میں سناٹا تھا۔ میں دہلیز پر اس احتیاط سے بیٹھا جیسے ابا کی آغوش میں۔ اس کے کندھے پر سر دھرے۔ ایسا نہ ہوا۔ بس میں اور میری تنہائی۔
ابا کا دہلیز سے کیسا رشتہ جُڑا تھا۔ سو میں بھی بیٹھا سوچتا رہا۔ سوچتا اپنے اندر سفر کرتا رہا۔ میں کمزور اور کم عمر ہوں۔ گھر سے بھاگ کر مسائل بڑھانا افورڈ نہیں کر سکتا۔ انتظار کرنا ہو گا۔ میں نے انگلیوں پر حساب لگایا۔ میٹرک کا نتیجہ اور کالج کا داخلہ۔ دو ہفتے پہلے یہیں بیٹھ کر ابا سے بڑا آدمی بننے کے وعدے کیے۔ اب گھر سے بھاگنے کے ارادے؟ کیا کروں؟