افسانےکہانیاں

جہیز

یونیورسٹی کے آڈیٹوریم ہال میں تھوڑی دیر قبل ہونے والا تالیوں اور ہوٹنگ کا شور پلوشہ کے ُپردرد اندازِ بیان اور سحر انگیز آواز سے تھم گیا تھا

"جہیز ایک لعنت ہے۔جہیز بوڑھے کاندھوں پر ڈالا گیا ایسا بوجھ ہے جس کو نا چاہتے ہوئے بھی ڈھونا پڑتا ہے۔ ہماری شادیوں کا ایسا بدصورت لازم جزو جو کہ جس کے بغیر برات گھر واپس لوٹ جاتی ہے، لڑکی ماں باپ کی چوکھٹ پر بیٹھی رہ جاتی ہے۔ یہ جہیز کا سامان، یہ بے جان اشیاء ایک جیتی جاگتی ہستی پر سبقت لے جاتی ہیں۔ ہماری پیدائش کے ساتھ ہی ہمارے ماں باپ تنکا تنکا جوڑنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ وہ باعزت طریقے سے ہمیں رخصت کر سکیں۔

ہماری پیدائش پر خوشی سے زیادہ فکرات ان کا دامن گھیر لیتی ہیں۔ بیٹی کی شادی اور اس کے اخراجات اور جہیز جمع کرنے کی فکر میں اکثر ہمارے معاشرے کے والدین بیٹی کی تعلیم اور بہتر معیارِ زندگی کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ مستقبل کی فکر انہیں حال کو نظرانداز کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود وہ لڑکے والوں کے شایانِ شان جہیز دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔

۔۔۔ کیوں؟”
یونیورسٹی کے آڈیٹوریم ہال میں تھوڑی دیر قبل ہونے والا تالیوں اور ہوٹنگ کا شور پلوشہ کے ُپردرد اندازِ بیان اور سحر انگیز آواز سے تھم گیا تھا۔پلوشہ نے ایک طائرانہ نگاہ سامنے بیٹھے حاضرین محفل پر ڈالی۔ اسٹیج پر آنے سے پہلے والی گھبراہٹ اس سکوت پر ختم ہو گئی تھی۔لمحہ بھر توقف کے بعد اس نے پرجوش انداز میں ہاتھ اٹھا کر دوبارہ تقریر کا تسلسل جوڑا۔

"جناب والا!! میں بتاتی ہوں کیوں..؟ وہ سامان اپنی کم مالیت کی بنا پر اپنی وقعت نہیں کھوتا بلکہ لڑکے والوں کی لالچی اور کم ظرفی کی بنا پر بے قدروقیمت ہو جاتا ہے۔ لڑکی کا باپ کبھی قرضے لے کر،تو کبھی بیوی کے زیورات بیچ ، تو کبھی اپنا پیٹ کاٹ کر کتنی صعوبتوں کے بعد جہیز جمع کرتا ہے تو دوسری طرف ماں کمیٹیاں ڈال کر، کبھی اپنے جہیز کے کپڑے بیٹی کے لیے سنبھال کر، تو کبھی بھائی بہنوں کے آگے شرمندہ ہو کر، تو کبھی محلے کے کپڑے سی کر یہ سامان اکٹھا کرتی ۔

جو کسی کے در پر جا کر دو کوڑی کا ہو جاتا ہے لیکن دراصل تو بےوقعت وہ لوگ ہوتے ہیں جو مادی چیزوں کے پیچھے زندہ دلوں کو ٹھیس پہنچ جاتے ہیں۔ ماں باپ سے ان کے جگر کا ٹکڑا لے کر بھی، ان کا قیمتی سرمایہ لے کر بھی مادی اشیاء کے لئے ایک جیتے جاگتے وجود کو ردی سمجھتے ہیں۔
صدر عالی !! میرے الفاظ آپ کو سخت تو بہت لگ رہے ہوں گے ۔مگر یہی تلخ حقیقت ہے لڑکی کو روپے پیسوں میں تولا جاتا ہے۔

لڑکی کی قدر نہیں ہے بس بےضمیر لوگوں کو بے جان چیزوں کی ہوس ہے یہ میری تقریر آئینہ ہے معاشرے کے بدصورت رویوں کی۔
اپنی تقریر کے اختتام پر صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ ہم سب اس بوجھ تلے دبے ہیں لیکن ہم میں سے کوئی بھی یہ بوجھ،یہ رسم ختم نہیں کرنا چاہتا۔اپنی بیٹیوں کو سونے کے زیور سے زیادہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کریں۔

ان کو خوداعتمادی اور خودشناسی کا ہنر دیں تاکہ وہ آئندہ زندگی میں کم ظرف اور گھٹیا لوگوں اور بے جان اشیاء کی وجہ سے احساس کمتری یا بے یقینی کا شکار نہ ہوں۔”
اختتام کے ساتھ ہی ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ دو تین منچلی لڑکیوں نے سیٹیاں بجا کر داد دی۔پلوشہ کے ہونٹوں پر آپ ہی آپ پر اعتماد مسکراہٹ بکھر گئی۔ اسٹیج پر آنے سے پہلے اس کی چال میں جو نادیدہ سی لرزش تھی اسٹیج سے اترتے وقت اس کی جگہ اعتماد اور مسکراہٹ نے لے لی۔

"بہت خوب مجھے تو پتہ تھا کہ اس دفعہ بھی تمہاری تقریر لاجواب ہو گی۔”
اپنی نشست کے قریب پہنچنےپر زویا کے تحسین بھرے الفاظ اس کی سماعتوں میں پڑے تو گردن فخر سے تن گئی اور اس نے فرضی کالر جھاڑے۔ اس کے شان بے نیازی والے انداز پر زویا کی ہنسی نکل گئ۔
"بس بس زیادہ اتراؤ نہیں ابھی رزلٹ نہیں بتایا۔” زویا نے فورا چوٹ کی۔

"میں کب اترا رہی ہوں مگر اپنے اللہ پر اور اس کے بعد اپنے آپ پر مجھے پورا یقین ہے۔ ” پلوشہ نے بھی اسے چڑاتے ہوئے ۔
"ششش،رزلٹ بتا رہی ہیں میڈم ۔” زویا نے اس کا ہاتھ زور سے دبا کر کان میں سرگوشی کی کیونکہ آس پاس والی لڑکیوں نے ان کے زور سے بولنے کی وجہ سے گھورنا شروع کر دیا تھا اور ان تک میڈم سامعہ کی آواز صحیح طرح نہیں پہنچ پا رہی تھی۔

پر
"اور ہر بار کی طرح اس بار بھی اول انعام کی حقدار ٹھہری ہیں پلوشہ سلیمان۔”
بھرپور تالیوں اور پرجوش نعروں میں پلوشہ نے انبساط کے ساتھ اپنا انعام وصول کیا ۔
"آ گئی میری شاہین ستاروں پہ کمند ڈال کے۔” جونہی پلوشہ نے گھر کے اندر قدم رکھا بسمہ نے دور سے ہی زوردار نعرہ بلند کیا۔پلوشہ کا کا خوشی سے تمتماتا ہوا چہرہ اور بھی کھل اٹھا۔

"آف کورس! ہم میدان میں اتریں اور فتح یاب نہ ٹھہریں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔” پلوشہ تیقن بھرےلہجےمیں جواب دے کر اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی اور اپنا بیگ اور شیلڈ وغیرہ میز پر رکھنے لگی۔
"اللہ اتنا غرور کسی کو نہ دیں۔ویسے میں تمہیں شاہین اسی لئے تو کہتی ہوں۔اس میں اور تم میں مطابقت جو بہت ہے ۔” بسمہ نے بھی چڑاتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگایا اور آگے بڑھ کر اس کے بیک سے سرٹیفکیٹ نکال کر دیکھنے لگی اور ساتھ ہی ساتھ وضاحت بھی دی۔

"پہلی بات تو یہ کہ میری امی منی کی اطلاع کے لئے عرض ہے ستاروں پہ کمند شاہین نہیں جوان ڈالتے ہیں اور دوسری یہ غرور نہیں ہے بس خود اعتمادی ہے اللہ پر توکل کے بعد اپنی محنت اور لگن پر پورا بھروسہ تھا مجھے۔” پلوشہ نے رسان سے جواب دیا۔
"آپ نے تو میری بات دل پہ ہی لے لی یار۔” بسمہ نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا اور پھر دونوں چیزیں ٹیبل پر واپس رکھنے لگی۔

"نہیں رکھو نہیں واپس! ابھی امی کو بھی دکھانی ہیں۔ میں نے تو سلام بھی نہیں کیا انہیں۔۔ ہیں کہاں پر وہ؟اور میں اپنی منی کی بات دل پر لے ہی نہ لوں۔” پلوشہ نے پہلے اسے روکتے ہوئے استفسار کیا اور پھر پیار بھرے انداز میں اس کا گال سہلانے لگی۔
"ہاں خود تو جیسے پچاس سال کی بڈھی ہیں نا مجھے منی کہتی ہیں۔” بسمہ نے خفگی سے منہ پھلایا۔

"اور امی نماز پڑھ رہی تھیں اب تو فارغ ہو گئی ہوںگی۔ آپ سلام کر کے پہلے فریش ہو جائیں میں کھانا رکھ رہی ہوں۔بہت زور کی بھوک لگ رہی ہے مجھے آپ کا انتظار کر رہے تھے ہم۔ یہ بعد میں دکھا دیئے گا ویسے بھی کونسی نئی بات ہے۔” جواب دینے کے ساتھ ساتھ اس نے بھی بدلہ چکایا۔
"چلو ٹھیک ہے۔” پلوشہ مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔

"بیٹا تم نے جو سموسے اور رول وغیرہ بنا کر رکھے تھے وہ ہیں یا ختم ہو گئے؟”
امی نے لاؤنج میں آکر پوچھا جہاں پلوشہ اور بسمہ ویک اینڈ کی وجہ سے گھر کی تفصیلی صفائی میں مصروف تھیں۔گھر کی صفائی کے لیے ویسے تو ماسی آتی تھی یوں بھی یونیورسٹی اور اسکول جانے کی وجہ سے دونوں کو ہی کم ٹائم مل پاتا تھا لیکن ویک اینڈ پہ دونوں گھر اور کچن کے بہت سارے کام نمٹا لیتی تھی کیونکہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے وہ دونوں ہی امی کو کام کرنے کا زیادہ موقع نہیں دیتی تھیں ۔

اور کچھ مجبوری اور کچھ شوق کی وجہ سے کچن کا زیادہ تر کام پلوشہ کے کاندھوں پر آ گیا تھا بسمہ بھی اس کی مدد کروانے کی کوشش کرتی تھی۔ مگر اکثر وہ اپنے چھوٹے ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا کرتی تھی اور پلوشہ بھی اس کے ناز نخرے بڑی خوشی خوشی اٹھاتی ۔
پلوشہ اور بسمہ دو ہی بہنیں تھیں ۔بہت حد تک دونوں کے مزاج وعادات مشترکہ تھے۔ دونوں ہی زندگی سے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو کشید کرنے پر یقین رکھتی تھیں لیکن پلوشہ کی پراعتمادیی، ذہانت اور سلجھا ہوا انداز لڑکیوں کو کیا لڑکوں کو حتی کہ بڑوں کو بھی رشک و حسد میں مبتلا کر دیتا تھا جبکہ بسمہ خاموش طبع اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکی تھی۔

"جی امی!ابھی تو ہوں گے پچھلے ہفتے ہی تو بنائے تھے تھے کیوں خیریت؟” پلوشہ نے کشن کور بدلتے ہوئے جواب اور سوال ساتھ ہی کیا۔
"ہاں بیٹا!! آج روقیہ آپا آ رہی ہیں۔ رومیلا اور سبرینہ بھی ساتھ ہوں گی تو تھوڑا اہتمام کرلینا۔”
"میرا باجی بھی آ رہی ہیں پھر تو بہت مزا آئے گا۔” بسمہ شرارتی نظروں سے پلوشہ کو دیکھنے لگی۔

"جی ہاں! ابھی تھوڑی دیر میں ہمارے ہاں غیبت کرنے والی بکری آنے والی ہے جو کہ بیک وقت اپنی اچھائی اور دوسروں کی برائی سے آپ کو مستفید کرتی ہے.” جوابا پلوشہ نے بھی ٹکڑا لگایا اور دونوں کا قہقہہ بڑا برجستہ تھا۔
"اوںہہ۔۔۔بری بات ہے بچوں تمہاری خالہ زاد بہن ہے اور ہے بھی بیچاری اکلوتی لڑکی گھر کی۔ تم لوگوں کے ساتھ ہنس بول لیتی ہے بچی۔

۔ خیر سے بھاوج گھر آئی تو خود رخصت ہو سسرال بھی مختصر سا ملا ہے۔ یوں بھی جس سے دل ملتا ہے بندہ اسی سے بےتکلف ہوتا ہے۔” امی نے مسکراہٹ دباتے ہوئے رسان سے سمجھایا۔اکلوتی بہن کی اکلوتی بیٹی بہت عزیز تھی انہیں۔
"جی پلوشہ باجی سے تو بہت ہی دل ملتا ہے ان کا۔” بسمہ نے پھر شوخی سے لقمہ دیا۔
"یار اب دیکھو ناں! امی کی بات بھی ٹھیک ہے۔

ویسے بھی لے دے کے ایک ہی کزن ہے ہماری یہاں پر ورنہ پھوپھو اور تایا ابو دونوں ہی باہر ہیں۔ سالوں بعد ملاقات ہوتی ہے ان کے بچوں سے۔ایک خالہ امی کے گھر ہی آنا جانا ہوتا ہے ہمارا اور رومیلا دل کی بہت اچھی ہے ہاں بس تھوڑی شوباز ہے۔”پلوشہ نے فوراً امی کی تائید کرتے ہوئے وضاحت دی۔یوں بھی اس کا حساس دل ہر کسی کے لئے گداز ہی رہتا تھا۔ اور رومیلا سے تو پھر اس کے خاطر خواہ دوستانہ تعلقات تھے۔

"اچھا چلو اب جلدی سے کام ختم کرلو۔ سہہ پہر تک وہ لوگ آجائیں گے۔میں دہی پھلکیاں وغیرہ بنالیتی ہوں باقی لوازمات تم دونوں خود آکر تیار کر لینا۔”امی نے ہدایات دیتے ہوئے کہا اور باورچی خانہ کی طرف بڑھ گئیں اور وہ دونوں پھرتی سے کام نمٹانے لگیں۔
"آہا آج تو بہت مزے مزے کی خوشبوئیں آرہی ہیں لوگوں کے کچن سے، شاید کسی کو پہلے سے ہی الہام ہوگیا تھاکہ آنے کا مقصد کیا ہے۔

اس ہی لیئے تیاری بھی خاص الخاص ہو رہی ہے۔” رومیلا معنی خیزی سے بولتی ہوئی باورچی خانہ میں داخل ہوئی اور باورچی خانہ میں پھیلی ہوئی خوشبو اپنے اندر اتار کر کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
"ارے تم کیوں یہاں بیٹھ گئیں؟ اندر چل کر بیٹھو نا۔۔۔کچن میں گرمی بہت ہو رہی ہے۔” پلوشہ نے مصروف انداز میں دوپٹے سے پسینہ پوچھا۔بات تو خاک بھی پلے نہیں پڑی تھی ا س کے سو نظرانداز کرتے ہوئے آدابِ میزبانی نبھائی۔

"اندر۔۔۔اندر تو امی اور خالہ باتوں میں لگی ہوئی ہیںاور ہماری بھابھی صاحبہ اپنی مرضی سے منہ لگاتی ہیں ہمیں۔” رومیلا نے منہ بناتے ہوئے کہا پھر اس کی طرف جھک کر رازداری سے گویا ہوئی۔”تمہیں پتہ ہے بھابھی کے ماموں امریکہ سے ان کے لیئے نیا مابائل فون لے کر آئے ہیں۔ پورے ڈیڑھ لاکھ کا موبائل ہے۔”
"اچھا ما شاء اللہ ! یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔

” پلوشہ نے سادہ سے انداز میں کہاتو رومیلا یک دم تنک گئی۔
"تم دونوں بہنیں تو دنیا سے بھی نرالی ہو۔۔۔صدا کی بھولی۔ نہ کسی فیشن کا شوق ہے اور نہ ہی زمانے کے ساتھ چلنا آتا ہے تم لوگوں کو۔”
"اب سبرینہ بھابھی کے نئے موبائل سے یا ان سے ہمارا اور اس زمانے کا کیا تعلق ؟!”رومیلا کے بد لحاظی سے کہنے پر پلوشہ نے بھی دوبدو سوال کیا۔

باورچی خانے میں داخل ہوتی بسمہ بھی ان دونوں کی بحث کا آغاز سن چکی تھی تو وہ جلدی سے پلوشی کی طرف بڑھی۔” کول ڈاؤن آپی!کول ڈاؤن۔۔۔آپ ذرا ٹھنڈا پانی پیئں اور بیٹھیں۔ سب کام تو تقریباً ہو ہی گئے۔ اب تو بس ٹیبل سیٹ کرنی ہے، وہ میں کر رہی ہوں بلکہ آپ دونوں اندر جائیں اور پنکھے کی ہوا کھائیں۔۔۔اس سے دماغوں کی گرمی کم ہوگی۔”
"تمہیں نہیں پتا تماری تو ایسی ہی چلتی رہتی ہے اور اب میں نہیں سمجھاؤں گی تو کون سمجھائے گا۔

ویسے اب اس کو رہنا تو ان ہی کے ساتھ پڑے گا نا۔”رومیلا نے بھی کندھے اچکاتے ہوئے بے نیازی دکھائی۔
” کیا کہا تم نے مجھے کیوں ان کے ساتھ رہنا پڑے گا۔دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا؟” پلوشہ کرسی سے ایسے اچھلی جیسے کرسی کے کانٹے اگ آئے ہوں۔
” ہا ہا ہا ہا!!! یہ تو سرپرائز ہےتمہیں اندر جا کر پتا چلے گا۔میں تو تمہیں ہیڈ لائن سنانے آئی تھی لیکن اس سے پہلے بھابھی نے میرا موڈ خراب کر دیا۔

"رومیلا نے قہقہہ لگانے کے ساتھ ہی آنکھیں گھما گھما کر مزید سنسنی پھیلائی۔
رومیلا نے یہ بات کرکے اپنا منہ سجا لیا۔اب مطلب صاف تھا کہ جب تک رومیلا ساری غیبتیں مع مرچ مسالے کے اس کے گوش گزار نہیں کرے گی اور اپنی تعریفیں ازبر نہیں کروائے گی اس وقت تک اس کا منہ سوجا ہی رہے گا۔
"اچھا بابا ۔۔۔بتاؤ کیا ہوا ہے؟” پلوشہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔

بسمہ تو پہلے سے ہی برتن سیٹ کرنے کے لیئے باورچی خانہ سے جا چکی تھی۔
"ہاں تو میں یہ بتا رہی تھی تمہیں کہ بھابھی کے ماموں ان کے لیئے موبائل لے کر آئے ہیں”
"آگے”
"وہ بھی پورے ڈیڑھ لاکھ کا”
"پھر”
"پھر یہ کہ اندھا پیسا ہے بھئیان کے پاس تو اور رہتے بھی امریکہ مین ہیں ۔ کیا پتہ حلال کا ہے بھی یا نہیں۔


"کچھ تو خدا کا خوف کرورومیلا کیوں کسی پر بہتان لگا رہی ہو۔”رومیلا کے آنکھیں مٹکا مٹکا کر سنائے جانے والے مفروضے پر پلوشہ نے فوراً ہی لتاڑاتھا اسے۔اس وجہ سے رومیلا کی گھوریوں میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
"اچھا یہ سب تو تم بتا چکی ہو، اصل بات بتاؤ، اس سب سے میرا کیا تعلق اور تمہیں کیوں مرچیں لگی ہوئی ہیں؟” پلوشہ نے ہاتھ اٹھا تے ہوئے پوچھا۔

"میں نے بھابھی سے کہا تھا کہ آپ کے پاس تو نیا موبائل آگیا، پرانا والا مجھے دے دیں۔ وہ بھی پورے پچھتر ہزار کا تھا۔ ابھی دو مہینے پہلے ہی تو بھائی نے ان کی سالگرہ پر گفٹ دیا تھا۔ لیکن انہوں نے ٹکا سا ضواب دے دیا۔ سمجھتی کیا ہیں اپنے آپ کو؟ ہم نہیں جانتے ان کے یہاں سب کو؟ سارا خاندان ہی دو نمبر ہے۔” رومیلا نے جھٹ سے دل کی بھڑاس نکالی۔

"تم اتنی سی بات کے لیئےدل چھوٹاکر رہی ہو۔وہ تو استعمال شدہ ہوگیا۔تمہارا اسٹینڈرڈ تھوڑی ہے دوسروں کی استعمال شدہ چیزیں لینے کا۔۔۔چھوڑو دفعہ کرو۔”پلوشہ نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا۔
"ہاں تو الحمد اللہ کسی چیز کی کمی نہیں ہے ۔ میرا شوہر منہ سے نکلی ہر بات پوری کرتا ہے۔میں ہوں ہی اتنی سلجھی ہوئی اور نفیس۔ تمہیں تو پتا ہی ہے کہ میں کتنی اچھی ہوں، ہے نا؟ مگر میکے کی چیزوں کا تو مان ہی الگ ہوتا ہے ۔

میری سسرال میں میری واہ واہ ہوجاتی کہ میرے بھائی بھابھی نے دیا ہے مجھے۔” رومیلا کے گلوگیر لہجے پر پلوشہ اپنا سر تھام کے رہ گئی۔
"افوہ۔۔۔حد ہوگئی بھئی آپ لوگوں سے تو ۔۔۔آج لگ رہا ہے کہ اگلے پچھلے سارے حساب کتاب برابر ہو کر رہیں گے۔ اب خدارا دونوں باہر تشریف آوری فر مالیں، خالہ اور امی کب سے آپ دونوں کا پوچھ رہی ہیں۔ سبرینہ بھابھی بور ہو رہی ہیں، اور تو اور سارے لوازمات بھی انتظار میں سوکھ رہے ہیں۔

” بسمہ کی آمد نے دونوں کو ہی چونکا دیا۔
"منی پلیز یہ رول تل لو میں خالہ امی کے پاس سے ہوکر آتی ہوں۔۔۔بس کباب تو ہوگئے فرائی، مائیکرو میں گرم کرلین گے ہلکے سے۔” پلوشہ تیزی سے کہتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئی اور رومیلا بھی اس کی تقلید میں اٹھ گئی۔
"آؤ بیٹا کہاں رہ گئیں تھے تم لوگ؟رومیلا بیٹا تم گھر میں بھی کاموں میں لگی رہتی ہو یہاں پر بھی گھس گئیں باورچی خانہ میں ۔

ارے بیٹا دو گھڑی تو سکون سے بیٹھ جاؤ۔” دونوں جیسے ہی آگے پیچھے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں تو خالہ امی نے رومیلا کو دیکھتے ہی فکر مندی کا اظہار کیا۔ اور جہاں رومیلا میسنی مسکراہٹ لبوں پہ سجا کر ایک کونے میں بیٹھ گئی تھی وہیں پلوشہ پیچ و تاب کھا کر رہ گئی تھی۔
"پلوشہ، آؤ تم ہمارے پاس بیٹھ جاؤ۔” سبرینہ بھابھی نے پنے اور ساس کے درمیان جگہ بنا کر اپنائیت سے کہا۔

اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ رومیلا کی مبہم باتوں کا مفہوم کچھ کچھ واضح ہو رہا تھا۔
"ہاں بھئی ادھر آؤ چندا۔” خالہ امی نے ہاتھ پکڑ کر پلوشہ کو اپنے پاس بٹھا لیا۔
"شازیہ آج سے یہ ہماری امانت ہے تمہارے پاس۔” انہوں نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چومی اور ہزار ہزار روپے کے کئی نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیے اور کچھ پیسے سر سے وار کر بسمہ کو تھمائے جو آئی تو سب کو چائے کے لیے بلانے تھی مگر اندر کا منظر دیکھ کر ہکا بکا کھڑی رہ گئی تھی۔

"آپ تھوڑی سی مہلت تو ۔ ۔۔میں سلیمان سے مشورہ تو کر لوں ۔۔۔ان شاءاللہ جواب آپ کے حق میں ہی ہوگا لیکن اس طرح ہتھیلی پر سرسوں تو نہ جمائیں۔ پھر اولاد کی رائے بھی تو مقدم رکھنی چاہیے نا ان معاملات میں، زندگی انہیں کو گزارنی ہے۔”
"لو یہ خوب کہی تم نے شازیہ۔۔ سلیمان بھلا مانس انسان ہے۔مجھے پتہ ہے کہ وہ مجھے انکار نہیں کر سکتا اور جب جواب ہے ہی میرے حق میں تو بلاجواز تاخیر کیوں کریں؟ اور یہ اولاد سے پوچھنے کی بھی تم نے خوب کہی۔

پورے سات برس چھوٹی ہو تم مجھ سے۔ تمہاری اور سلیمان کی شادی بھی میں نے ہی کروائی تھی۔ تمہاری رائے لی تھی کیا؟یہ بے شرمی ہمارے ہاں تو نہیں ہوتی بھئ۔ تم ہی چڑھاؤ اپنی اولاد کو اپنے سر الحمدللہ میری اولاد ایسی نافرمان نہیں ہے کہ میرے فیصلے کے خلاف جائے۔آنے سے پہلے میں نے زوہیب کو آگاہ کر دیا تھا اپنے فیصلے سے۔ مجال ہے کہ وہ چوں بھی بولا ہو ایسے ہی ماشااللہ میرے طلال اور رومیلا نے سر جھکایا تھا میرے فیصلوں پر اور شعیب بھی ایسا ہی فرمابردار ہے۔

ٹھیک ہے تمہاری اولاد کی مرضی نہیں ہے تو انکار کر دو میں نے تو اپنی بہن کی محبت میں یہ رشتہ استوار کرنے کا سوچا تھا کہ ہمارا رشتہ اور بھی مضبوط ہو جائے گا اور اپنے ہی اپنوں کا بھرم رکھتے ہیں۔ویسے بھی میں تمہارا بوجھ نہیں بانٹوں گی تو اور کون بانٹے گا۔ مگر تم نے تو میرا مان ہی توڑ دیا۔” امی کے بےضرر سے پس و پیش کرنے پر خالہ امی نے انہیں بے نقط سنا ڈالی تھیں۔

اس کے بعد بھی ان کا پارہ نیچے نہیں آیا تھا بلکہ الٹا وہ جذباتی بھی پر اتر آئیں تھیں۔ دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھیں اور جانے کے لیے قدم بڑھا ۔سبرینہ اور رومیلا بھی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"آپا حد کرتی ہیں آپ۔۔۔میں آپ کی شان میں ذرا سی بھی گستاخی نہیں کر سکتی۔کجا کہ مان توڑنا۔پلوشہ اب آپ کی امانت ہے لیکن باقاعدہ جواب میں اور سلیمان آپ کے گھر آ کر ہی دیں گے۔

یہ میری چھوٹی سی خواہش ہے اور جب ہی منگنی کی تاریخ طے کر لیں گے۔” امی نے تڑپ کر خالہ امی کو جانے سے روکا اور ملتجیانہ انداز میں بات مکمل کی اور پلوشہ جو ماؤف ہوتے ذہن کے ساتھ امی کی جانب کب سے امیدوآس کی کیفیت میں دیکھ رہی تھی بالکل ہی بجھ گئی کچھ ایسا ہی حال بسمہ کا تھا۔
"تم کہہ رہی ہو تو رک جاتی ہوں۔مجھے یقین تھا کہ انکار ہو ہی نہیں سکتا اسی لئے تو شگون کے پیسے ساتھ لائی تھی اور منگنی کے جھنجھٹ میں ہمیں نہیں پڑھنا بس سیدھے سیدھے شادی کریں گے۔

” وہ ایسی ہی تھیں پل میں شعلہ پل میں شبنم۔ان کا موڈ بحال ہوتا دیکھ کر جہاں امی کی اٹکی ہوئی سانس خارج ہوئی تھی۔وہیں سبرینہ اور رومیلا کے چہروں پر بھی رونق لوٹ آئی تھی لیکن پلوشہ بغیر کچھ کہے اپنے کمرے میں آ کر بند ہو گئی تھی۔
"آپا اب تو چلیں جلدی سے چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ ماشاءاللہ بچیوں نے گھر پر ہی سب کچھ تیار کیا ہوا ہے۔

بسمہ چلو شاباش!! تم لے کر چلو سب کو پلوشہ تو شرما گئی شاید۔” امی نے پلوشہ کے جارحانہ انداز کو محسوس کر لیا تھا تھا جب ہی بات کا رخ موڑ کر میزبانی کے فرائض انجام دینے لگیں۔
"آپ نے صاف صاف منع کیوں نہیں کیا خالہ امی کو؟” پلوشہ اس وقت بہت بد لحاظ ہو رہی تھی۔
"بیٹا تم خود دیکھ رہی تھی کہ آپا نے مجھے موقع ہی کہاں دیا تھا۔

” امی نے رسان سے سمجھایا۔
"میں کچھ نہیں جانتی آپ فوراً ان کو منع کر دیں۔میں کبھی بھی وہاں شادی نہیں کروں گی۔” پلوشہ نے صاف جواب دیا۔
"اچھی بیٹیاں اس طرح تو بات نہیں کرتی نہ اپنے والدین سے۔” ابو جو اب تک خاموش بیٹھے دونوں ماں بیٹی کی باتیں سن رہے تھے۔پلوشہ کو پیار سے ٹوکتے ہوئے بولے۔
"لیکن ابو! کیا آپ لوگوں نے مجھے اسی لیے اعلی تعلیم دلوائی تھی. اسی لیے شعوردیا تھا کہ ایک دن میں بھی بے زبان جانور کی طرح کسی کے کھونٹے سے بندھ جاؤں؟ کیا میری اپنی مرضی اہمیت نہیں رکھتی؟” اب کے پلوشہ نے مدھم لہجے میں استفسار کیا۔

"بالکل کرتی ہے بیٹا۔۔ میں مانتا ہوں رقیہ آپا کا طریقہ غلط تھا۔انہیں ہماری رائے کو،ہمارے فیصلے کو مقدم رکھنا چاہیے تھا۔لیکن اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو یہ رشتہ بہت مناسب ہے ہماری گڑیا کے لیے۔”
"مگر ابو مجھے نہیں کرنی خالہ امی کے گھر شادی۔”
"اگر تمہیں کوئی اور پسند ہے تو بتاؤ پھر ہم کچھ سوچ بھی سکتے ہیں لیکن اگر نہیں تو یہ رشتہ نہایت موزوں ہے تمہارے لیے۔

سب سے بڑھ کر اپنی خالہ کے گھر جاؤ گی اور ماشاءاللہ سے اچھے کھاتے پیتے گھر جاؤ گی۔ بھائی صاحب کے دو بڑے چلتے ہوئے سپر اسٹور ہیں جو ان کی وفات کے بعد سے تینوں بیٹے احسن طریقے سے چلا رہے ہیں اور تعلیم اور شکل و صورت کے لحاظ سے سے بھی کم نہیں ہے زوہیب۔” پلوشہ کو ضد کرتے دیکھ کر امی نے بھی تھوڑے سخت لہجے میں بات کرنے کی ٹھانی۔لیکن ہمیشہ کی صلح جو طبیعت والے ابو نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور امی سے مخاطب ہو کر بولے۔

"اگر ہماری بیٹی کو کوئی پسند ہوتا تو تمہیں سب سے پہلے خبر ہوتی۔ اس کا مطالبہ نہ جائز نہیں ہے بیگم۔۔ آپ آرام سے بھی تو سمجھا سکتی ہیں نا۔”
"بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔۔ برا مجھے بھی لگا تھا لیکن انکار کا کوئی جواز بھی تو ہو۔ماسٹرز کا آخری سمسٹر ہے اس کا کوئی دوسرا رشتہ بھی نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر زوہیب دیکھا بھالا بچہ ہے,شریف ہے ایک طرح سے آپا کی بات بھی درست تھی جب اقرار ہی کرنا ہے تو تاخیر کیوں کریں؟” امی نے مصلحت کے ساتھ ایسے قائل کرنے کی کوشش کی۔

"آپ کو خالہ امی کی اور رومیلا باجی کی عادت کا بھی پتہ ہے اور زوہیب بھائی کی بھی وہ سب پرانےخیالات کے اور خود پسند ہیں پھر بھی آپ لوگ چاہتے ہیں کہ آپی کی شادی وہاں ہو۔۔۔؟” پلوشہ کی گہری خاموشی پر بہت دیر سے دروازے سے کان لگا کر کھڑی بسمہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا اور وہ دھڑ سے دروازہ کھول کر جوش میں پلوشہ کے برابر بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی تھی اور بلا تمہید شروع ہو گئی تھی۔

"میں جانتی ہوں ان سب کے مزاج اور عادات ہم سے بہت مختلف ہیں۔ مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میری بیٹی اپنی اچھی عادتوں سے سب کو خوش رکھے گی۔ میری پلوشہ میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ سب کو گرویدہ بنا لیتی ہے اور انشاءاللہ ہر میدان کی طرح اس میدان میں بھی وہ سرخرو ہوگی۔” امی نے پرنم آنکھوں اور رندھی ہوئی آواز میں کہا اور پلوشہ کا سر سینے سے لگا لیا۔

کمرے کا ماحول ایک دم ہی بوجھل ہو گیا تھا۔
"بنو میری چلی سسرال رےےےےے۔۔” ابھی بسمہ نے سر لگانے شروع ہی کیے تھے کہ امی کی زوردار دھپ سے ان کا گلا گھٹ گیا اور کمرہ زعفران زار ہوگیا۔
"پلوشہ… پلوشہ کب سے آواز دے رہی ہوں تمہیں۔۔بہری ہو گئی ہو کیا؟” خالہ امی نے اپنے تخت پر سے بیٹھے بیٹھے اچانک ہی چیخنا شروع کر دیا تھا۔

پلوشہ باہر صحن میں سے ہانپتی کانپتی اندر لاؤنج میں براجمان ان کے تخت کے پاس پہنچی۔
"بی بی ذرا کام کاج میں بھی دل لگا لیا کرو۔ تمہیں اپنے آپ سے ہی فرصت نہیں ہوتی۔چھٹی والا دن ہے۔میاں گھر پر ہے کچھ اس کے ناشتے پانی کا اہتمام کرلو باقی سب کو تو ڈالو بھاڑ میں۔”
"خالہ امی وہ میں باہر کپڑے دھو رہی تھی۔” خالہ امی کے کڑوے انداز پر پلوشہ نے آہستگی سے کہا۔

"جتاؤ اور جتاؤ۔۔ایک کام کرتی ہیں مہارانی صاحبہ وہ بھی جتا دیتی ہیں یہی کام ذمہ ہے تمہارے اور سب کاموں کے لیے تو ماسی آتی ہے نا لیکن وہ بھی احسان کر کے ہوتا ہے۔زوہیب اٹھ کر آگیا ہے یہ سب چھوڑ کر پہلے اس کو ناشتہ دو۔” ان کا ہتک آمیز رویہ پلوشہ کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا ویسے بھی وہ جس حالت میں تھی بہت جلدی حساس ہو جاتی تھی۔

"خالہ امی میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا۔” جیسے ہی پلوشہ نے کچھ کہنا چاہا خالہ امی کا پارہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔
"بس یہی کسر رہ گئی تھی تمہاری زبان درازی کی۔ نہ تم اپنی جان سے مجھے سکھ دینا،نہ تم کوئی بھر بھر کے ٹرک لائیں تھیں جہیز کے۔سبرینہ بہو بھی تو ہے ایک سے ایک چیزیں تھیں اس کے جہیز کی۔ میرا گھر کیسا سج گیا تھا پھر عادت کی بھی اتنی اچھی۔

۔۔۔ زوہیب کی شادی کی تھی تو اس خیال سے کہ اکلوتی بہن ناک نہیں کٹوائی گی برادری میں۔سبرینہ کا سامان اوپر سیٹ کر دیا تھا کہ نیچے اب نئی بہو آئے گی وہ سجاۓ گی۔ مگر مجال ہے جو شازیہ نے ایک بھی ڈھنگ کی چیز دی ہو۔ اللہ کا شکر ہے میرے یہاں کمی نہیں ہے کسی چیز کی لیکن مائیں تو دیتی ہیں۔۔ کل برابر میں سنبلہ کے گھر جہیز آیا ہے بہو کا آنکھیں خیرہ ہو رہی ہیں دیکھ کر لیکن یہاں تو ایسی سبکی کا احساس ہوا تھا کہ کیا بتاؤں۔

” انہوں نے ہاتھ نچا نچا کر ہزار بار کا دہرایا ہوا "دکھ” دوبارہ دہرایا۔غصے میں اس کی ذات کے بخیے ادھیڑنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ بھانجی ہونے کے باوجود بھی اس کا سب سے بڑا جرم ان کے شایان شان "جہیز” نہ لانا تھا۔
پلوشہ نے پلکیں جھپک جھپک کر آنکھوں میں آئے آنسو اندر اتارے اور دزدیدہ نگاہوں سے زہیب کو دیکھا جو لا تعلق بنا بیٹھا اخبار کی سرخیوں پر نظر دوڑا رہا تھا۔

"میرا بچہ ایسا نہیں ہے جو میرے آگے بولنا شروع کر دے۔” انہوں نے گویا اس کے نظروں کے مفہوم کو سمجھ کر جتایا۔
"اور زوہیب اس کو تھوڑی عقل دو کہ بڑوں کے سامنے کس طرح بولتے ہیں۔” خالہ امی نے ساتھ ہی زوہیب کو بھی سرزنش کی۔
"آپ ہی بیاہ کر لائیں تھیں۔ آپ ہی سر کھپائیں۔ مجھے تو اس سب جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں تھا۔”زوہیب نے وہی ازلی لاتعلقی سے جواب دیا۔

"اور بڑے بڑے لوگوں نے ان سے بولنا سیکھا ہے اماں یونیورسٹی کی بہترین مقرر رہی ہیں ہم جیسے ان کو کہاں سکھا سکتے ہیں۔” ایک اور طنز اور طعنہ ۔پلوشہ ضبط کی انتہاؤں کو چھونے لگی اور تیزی سے مڑ کر باورچی خانے میں جا کر ٹھنڈا پانی پیا۔
سال ہونے کو آیا تھا اس کی شادی کو حالات بد سے بدتر ہی ہو رہے تھے۔منفی سوچیں اس کی ذہنی آماجگاہ بن گئی تھیں ۔

اس حالت میں تو ذہنی سکون و دلی راحت کی اور بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب بھی کبھی خالہ امی کسی کے گھر شاندار جہیز آتا دیکھتی تھیں تو پلوشہ کی اسی طرح شامت آتی تھی۔
پلوشہ کو ان کا مزاج سمجھ نہیں آتا تھا۔ کبھی چھاؤں کی طرح ٹھنڈی اور کبھی آگ کی طرح گرم اور جس وقت وہ آگ بنی ہوتی تھیں تو واقعی سامنے والے کی ہستی جلا کر خاکستر کر دیا کرتی تھیں پھر خود تو وہ چھاؤں بن جاتیں لیکن جلنے والا جلتا اور سلگتا ہی رہتا تھا بالکل یہی مزاج رومیلا نے بھی اپنی ماں سے لیا تھا وہ دوستی وہ بے تکلفی قصہ پارینہ ہوگئے تھے۔

اور زوہیب کے لئے تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ وہ ان مردوں میں سے تھا جن کے نزدیک بیوی کے حقوق بس یہی ہے کہ کھلا پلا دو اور اولاد پیدا کر لو۔ باقی بیوی سے پیار،اس کی عزت یہ سب الفاظ اس کے لغت میں نہیں تھے۔
"مجھے نہیں پتہ امی۔۔ آپ چھٹی کے لئے سارا سامان برانڈڈ اور مہنگا لیں گی۔”
"بیٹا کیا ہوگیا تمہیں۔۔۔ انشاء اللہ سب اچھا ہی ہوگا۔

اپنی جانب سے ہم نے پہلے بھی کوئی کمی نہیں کی تھی اور اب بھی نہیں کریں گے۔” امی نے پلوشہ کے ہٹ دھرم لہجے پر پریشان ہو کر اسے سمجھایا۔
"کیا خاک اچھا تھا سب۔۔سستی سستی چیزیں ساری آپ کو میرے ہی جہیز میں رکھنی تھیں۔ نہ الیکٹرانکس کا سامان،نہ ڈھنگ کی کراکری ۔بس لے دے کے فرنیچر ہی تو دیا تھا مجھے۔اور تو اور کپڑے بھی جمعہ بازار سے لئے تھےآپ نے۔

اگرکوئی معیاری سامان ہوتا تو آج میری بھی عزت ہوتی سسرال میں۔” پلوشہ نے بے مروتی کی حد ہی تو کر دی تھی۔
امی کی اڑتی رنگت دیکھ کر کر بسمہ نے آگے بڑھ کر امی کے ہاتھ سے موبائل لیااوراسپیکر آف کر کے کان سے لگایا۔
"ہاں آپی! میں کتنے دن سے سوچ رہی تھی کہ آپ کی طرف چکر لگاؤں گی۔آج تو میں امی کے یہاں آئی تھی۔صبح اسد مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

مما کہہ رہی تھی کہ شام میں تمہاری امی کی طرف آ جاؤ گی اچھا ہے گپ شپ بھی ہو جائے گی تو میں ان کے ساتھ ہی گھر چلی جاؤں گی۔کل ڈن ہے بس اچھی سی چائے بنا کر رکھیے گا۔۔۔اللہ حافظ۔” بسمہ نے بات ختم کرکے موبائل بند کیا اور امی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔اسی وقت میڈم سامعہ (مما)آ گئیں تو اس نے شکر ادا کیا۔ مگر چہرے پر گہری سوچ کا عکس واضح تھا۔

"آپ کو کہیں سے بھی لگتا ہے کہ آپ وہی پلوشہ سلیمان ہیں جو مقابل کو بس اپنے لب و لہجے سے ہی زیر کر دیا کرتی تھی۔”بسمہ اور وہ اس کے بیڈروم میں آ کر بیٹھے تھے اور چھوٹتے ہی بسمہ نے اس سے یہ پوچھا تھا۔
"جب انسان روز جیے اور روز مرے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔” پلوشہ زہر خند ہوئی۔
"فار گاڈ سیک آپی!!! کیا ہوگیا ہے آپ کو خدانخواستہ کوئی ایسے بھی ظلم کے پہاڑ نہیں ٹوٹ رہے آپ پر کہ آپ اتنی انتہا پر جا کر سوچنے لگیں۔

ہاں تم تو یہی کہوں گی نا۔۔ خود تو ماشاءاللہ اتنا اچھا خاندان مل گیا ہے تمہیں۔ کتنی اچھی ساس ہیں میڈم سامعہ اور اسد بھی کتنا خیال رکھتا ہے تمہارا۔ایک پھپھو ساس کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تمہاری سسرال میں۔ دوران تعلیم تمہاری شادی ہوئی لیکن اپنے وعدے کا پاس رکھتے ہوئے وہ تعلیم مکمل کروا رہے ہیں نا۔ یہاں دیکھو خیال کیا ہوگا الٹا ہر وقت کے طنز وطعنے ہیں۔

” بسمہ کے سمجھانے پر وہ بپھرہی تو گئی تھی۔
"اچھا ٹھیک ہے مان لیا کہ آپ بہت برے حالات میں گزارا کر رہی ہیںلیکن امی کو کیوں پریشان کر رہی ہیں آپ؟ ابو کو اس بارے مین کچھ نہیں پتا ورنہ آپ جانتی ہیں وہ کس قدر دل شکستہ اور مایوس ہو نگے آپ کی طرف سے۔” بسمہ نے بھی زچ ہو کر کہا۔
"پریشان؟ میں کر رہی ہوں پریشان؟کیا تھا اگر وہ کبھی مجھے بھی شاندار طریقے سے رخصت کرتیں۔

۔۔بہت شاندار سا جہیز ہوتاتاکہ مین بھی سر اٹھا کہ جیتی؟” پلوشہ کے لہجے میں حسرتیں بول رہیں تھیں۔
"جہیز ایک لعنت ہے، جہیز ایک بوجھ ہے، وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔اسی قسم کی تقریر پر آپ کو انعام ملا تھا نا؟کیا وہ محض لفاظی تھی آپ کی ؟آپ نے انعام کے لیئے اتنا درد بھرا تھا اپنی تقریر میں؟”بسمہ بھی تیز ہو گئی۔
"تمہیں پتا ہے بسمہ۔

۔۔وہ باتیں وہ جوش وہ جذبہ، کسی الگ ہی افسانوی دنیا کی باتیں ہیں شاید۔ جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے نا انسان، تو سفاک حقیقتیں منہ کھولے کھڑی ہوتی ہیں۔ شاید میں غلط تھی ۔ اگر شوہر اپنی بیوی کا محافظ نا ہو ، اس کو عزت دے کر معتبر نہ کرے توعورت کبھی مال کا تو کبھی اولاد کا سہارا ڈھونڈتی ہے۔اور مال بھ وہ جو اس کے ماں باپ کی طرف سے مل رہا ہو۔

۔۔مگر تم نہیں سمجھو گی۔ تمہیں ہر دوسرے دن ذلیل نہیں کیا جاتا نا۔ ہر تھوڑے عرصے بعد تمہیں تمہاری اوقات یاد نہیں دلائی فاتی نا۔ نا تمہاری ذات کے پرخچے اڑائے جاتے ہیں۔اور تمہاری دوست بھی دوست نہ رہے۔ یہ بے یقینی نہیں ہے کہ بس ابھی دھکے دے کر باہر نکال دی جاؤ گی۔نہیں سمجھو گی تم۔۔۔” پلوشہ نے بسمہ کے کاندھے پر سر سکھ کے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔

اس وقت اس کی حالت ایک چھوٹی بچی جیسی ہو رہی تھی جسے مہربان وجود نظر آتے ہی وہ اس سے چمٹ کے آنسو بہا نے اور سب شکایاتیں سنا دینا چاہتی تھی۔
"مجھے پتہ ہے آپی میری سسرال والے بہت اچھےہیں لیکن آزمائشیں سب کا مقدر ہوتی ہیں۔ جیسا آپ کا جہیز تھا بالکل ویسا ہی میرا بھی تھا۔ اسد کی مالی پوزیشن زوہیب بھائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔

مگر پھر بھی اسد نے یا مما نے کبھی بھی مجھے جہیز نہ لانے کے طعنے نہیں دیئے۔یہ کام بہ احسن و خوبی ان کی پھپھو انجام دیتی ہیں۔ زندگی میرے لیئے بھی پھولوں کا سیج نہیں ہے۔ مالی تنگی اور ذہنی تنگی دونوں ہی مجھے بھی بھگتنی پڑتی ہیں۔لیکن میں ان کم ظرف اور بے ضمیر لوگوں کے لیے خود کو ہلکان نہیں کرتی۔ مما آپ کی بہت تعریفیں کرتی ہیں کہ پلوشہ جیسی با شعور لڑکی نے کتنے چراغ روشن کئے ہیں کتنے لوگوں کے دلوں پہ اس کی تقریروں نے اثر کیا ہے۔

ایسی ہی باشعور لڑکیاں ہمارا سرمایہ ہیں۔”
بسمہ نے دھیرے دھیرے اس کے دل و دماغ پہ چھائی یاسیت اور مایوسی کے رنگ کو اتارنے کی کوشش کر رہی تھی جو منفی روپوں کےباعث دل و دماغ پہ لگ چکا تھا اور گھن بن کر اندر ہی اندر پلوشہ کو چاٹ رہا تھا۔اس کو خاموش دیکھ کر بسمہ مزید گویا ہوئی۔
"میکے سے ملے تحائف یا میکے سے آئی ہوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز لڑکی کے دل کے بہت قریب ہوتی ہے۔

اسے ان چیزوں سے اپنے میکے کی خوشبو آتی ہے ۔ مگر ہمارے جاہلانہ نظام نے اس کو بری طرح مسخ کردیا ہے ۔ واقعی ظرف ظرف کی بات ہے، جو گھٹیا ہوتے ہیں وہ ٹرک بھر کر جہیز لینے کے بعد بھی بہو کو آگ لگا دیتے ہیں اور جو باعزت اور غیرت مند ہوتے ہیں وہ دو جوڑوں میں رخصت کروا کر بھی اسے عزت و پیار سے نوازتے ہیں۔”
پلوشہ آنسو پوچھ کر اب تھوڑی کے نیچے ہاتھ کر کے اس کی باتیں سن رہی تھی ۔

اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بسمہ بولتی رہے اور وہ سنتی رہے۔ایک عرصے بعد دل کا بوجھ کم ہوتا مھسس ہو رہا تھا ۔ خالہ امی، رومیلاباجی، سبرینہ بھابھی زوہیب بھائی، کوئی بدلے یا نہ بدلے، اس کو بس خود کو بدلنا ہے۔
” یہ سب ایسے ہی تھے ۔۔۔نہ رومیلا باجی پہلے تمہاری دوست تھیں نا خالہ امی بےلوث محبت کرنے والی تھیں اور نا ہی سبرینہ بھابھی کا بھاری بھرکم جہیز ان کے ہر عیب ڈھانپنے کے لئے کافی تھا۔

مگر آپ کو سب اچھے اور مثبت لگتے تھے۔ کیونکہ آپ ان کے متعلق مثبت انداز میں سوچتی تھی تو اب پھر سے ایک اور چراغ جلائیں۔ خود کو وہی باتیں سمجھائیں جو دوسروں کو سمجھاتی تھیں۔”
"صرف اللہ کی ذات سے امیدیں وابستہ کرکے ہر نیک فعل انجام دیں۔پھر زندگی سے یہ مایوسی، یہ غم چھٹ جائے گا۔اب تو آپ ماں کے عظیم مرتبے پربھی فائز ہونے والی ہیں۔

اس کے لئے بھی آپ کو ہی مشعل راہ بنا ہے۔شاید زندگی کے کسی موڑ پر زوہیب بھائی آپ کو وہ عزت اور پیار دیں جو ایک بیوی ہونے کے ناطے آپ کا حق ہے۔ مگر آپ خود سے پیار کرنا نہ بھولیں۔ کسی کی برائی کی وجہ سے اپنی اچھائی نہ گنوائیں۔ آپ پر وہی پراعتمادی ججتی ہے جو آپ کی طبیعت کا خاصہ تھی۔” بسمہ نے ایک طویل لیکچر کے بعد لمبی سانس خارج کی اور پلوشہ کی طرف دیکھ کر متانت سے مسکرا دی۔

"مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کب میری منی اتنی بڑی ہو گئی کہ اپنی آپی کی مسیحا بن گئی۔ مجھے وہ حقیقت روشناس کرا گئی جو میں بھول چکی تھی۔” پلوشہ نے بسمہ کے سر پہ ہلکے سے چپت لگائی۔
جواباً بسمہ کے منہ پھلانے پر پلوشہ کھلکھلا اٹھی اور بے ساختہ دونوں نے ایک دوسرے کی خوشیوں کے دائمی ہونے کی دعا مانگی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button