ذیابیطس ایک ایسا دائمی مرض ہے جس کے شکار ہونے کے بعد اس سے نجات پانا ممکن نہیں بلکہ اسے طرز زندگی کی عادات اور ادویات کی مدد سے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ذیابیطس ٹائپ 2 کے برعکس ذیابیطس ٹائپ 1 ایک آٹو امیون مرض ہے جس میں ہمارے جسم کا دفاعی نظام ہی لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیات کو تباہ کر دیتا ہے۔
اس کے نتیجے میں مریضوں کو انسولین کے انجیکشنز استعمال کرنا پڑتے ہیں۔
مگر چینی سائنسدانوں نے خاتون کے اپنے اسٹیم سیلز کو ری پروگرام کرکے انہیں انسولین بنانے والے خلیات میں تبدیل کر دیا۔
ان اسٹیم سیلز کو معدے کے مسلز میں انجیکٹ کیا گیا جس سے محققین کو ایم آر آئی کے ذریعے خلیات کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے کا موقع ملا۔
اسٹیم سیلز ایک خصوصی خلیات ہوتے ہیں جو خود کو نیا بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں اکثر ٹشوز کی مرمت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اسٹیم سیلز انجیکٹ ہونے کے ڈھائی ماہ بعد خاتون کا جسم مناسب مقدار میں انسولین بنانے لگا۔
اس کے باعث اسے ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے لیے انسولین کے انجیکشن لینے کی ضرورت نہیں رہی۔
جسم میں مناسب مقدار میں انسولین بننے کا عمل 2 سال سے زائد عرصے سے برقرار ہے۔
محققین کے مطابق اس طریقہ کار کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔
Peking یونیورسٹی کے ماہرین نے اس طریقہ کار کو تشکیل دیا اور اب ان کی جانب سے مزید 20 مریضوں کو کلینیکل ٹرائل کا حصہ بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خاتون کے اس علاج کو نومبر میں ڈھائی سال مکمل ہو جائیں گے اور اگر اس کی حالت درست رہی تو یہ ذیابیطس ٹائپ 1 کے علاج کے لیے اہم ترین پیشرفت ہوگی۔
اس خاتون کی عمر 25 سال ہے اور وہ بچپن سے ہی ذیابیطس ٹائپ 1 کی شکار تھیں۔
اس خاتون نے بتایا کہ ‘میں اب چینی کھا سکتی ہوں، اب میں ہر کھانے سے لطف اندوز ہوسکتی ہوں’۔
مگر اس وقت ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریض کا علاج کیا گیا تھا۔
Shanghai Changzheng Hospital کے محققین نے اس مریض کا علاج 2021 میں شروع کیا اور 2022 سے اسے ادویات کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑی۔
تحقیق میں شامل مریض 25 سال سے ذیابیطس ٹائپ 2 کا شکار تھا اور اس کے لبلبے کے خلیات کے افعال لگ بھگ مکمل طور پر ختم ہو چکے تھے جبکہ سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا تھا جس کے باعث اسے روزانہ انسولین کے کئی انجیکشنز لگوانے پڑتے تھے۔
جولائی 2021 میں اس مریض میں خلیات کو ٹرانسپلانٹ کیا گیا جس کے 11 ہفتوں بعد اسے انسولین کے انجیکشن لگوانے کی ضرورت نہیں رہی۔
منہ کے ذریعے کھائی جانے والی ادویات کی خوراک میں بتدریج کمی آئی اور ایک سال بعد ان کا استعمال مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔
اس کے بعد بھی مریض کی صحت پر نظر رکھی گئی اور دریافت ہوا کہ اس کے لبلبے کے خلیات کے افعال مکمل طور پر بحال ہو گئے ہیں