استنبول
وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاءاللہ تارڑ نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بہتر اور مثبت استعمال کے لئے عالمی سطح پر ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اے آئی پالیسی کو دنیا کے بہترین اخلاقی معیارات کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے پوری طرح پرعزم ہے، نوجوانوں کے لئے اے آئی میں تربیتی ماڈیول فراہم کر رہے ہیں، آئندہ سال ہمارا ہدف 10 لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کے شعبے میں تربیت فراہم کرنا ہے، اے آئی کے شعبہ میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ایگری ٹیک، فن ٹیک، ہیلتھ ٹیک سمیت دیگر شعبوں میں ترقی ہو رہی ہے، مس انفارمیشن جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بڑے لینگوئج ماڈل تیار کرنے ہوں گے۔ جمعہ کو یہاں Stratcom Summit 2024 سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان میں 111 ملین انٹرنیٹ صارفین، 71 ملین سوشل میڈیا صارفین اور تقریباً 188 ملین موبائل فون صارفین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی کا 68 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، ہمیں نوجوانوں کے حوالے سے مواقع اور چیلنجز درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ
ہم اپنے نوجوانوں کو آئی ٹی کی مہارتیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اندرون و بیرون ملک آئی ٹی سکلز اور اے آئی میں نمایاں خدمات انجام دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نوجوان ہنرمند اور باصلاحیت ہیں، حکومت نوجوانوں پر خصوصی توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ نیشنل فیبرائزیشن پالیسی کے تحت پوری آبادی کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ ہمارا اگلا ہدف فائیو جی اسپیکٹرم ہے، ہم اس کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نیشنل اے آئی پالیسی جدید رجحانات سے ہم آہنگ ہے جس میں ہم اخلاقی معیارات کو انتہائی اہمیت دے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب ہم عالمی خطرات اور اپنی نسل کے سب سے بڑے چیلنج کی بات کرتے ہیں تو وہ مس انفارمیشن ہے، مس انفارمیشن سے نمٹنے کے لئے ہمیں بڑے لینگوئج ماڈل تیار کرنے ہوں گے، ہمیں نیچرل لینگوئج پروسیسنگ کی طرف بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے LLMs اور NLPs تیار کرنا ہوں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ جہاں تک نیشنل اے آئی پالیسی کا تعلق ہے، تاریخ کے درست اعداد و شمار اور درست حقائق کے لئے اس کا بڑا حصہ اخلاقیات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت فیکٹ چیک فورم کام کر رہا ہے جو حقائق کی تصدیق کرتا ہے، اس فیکٹ چیک فورم میں اے آئی لازمی جزو ہے لیکن اس میں انسانی مداخلت بھی موجود ہے جو اے آئی ماڈیول کی نگرانی کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات کا ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشنز حکومت کی سٹریٹجک کمیونیکیشن پالیسی کے تحت پاکستان سمیت دنیا بھر میں رائے عامہ اور بیانیہ پر نظر رکھتا ہے،
اس مقصد کے لئے ہم اپنے جدید اے آئی انجن ماڈلز استعمال کر رہے ہیں تاکہ سٹریٹجک کمیونیکیشن کو بہتر بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایگری ٹیک، فن ٹیک، ہیلتھ ٹیک، EduTech اور GovTech میں اپنی اے آئی پالیسی لاگو کرنے جا رہا ہے، اس مقصد کے لئے ہم فریم ورک تیار کر رہے ہیں تاکہ یہ تصدیق شدہ اور درست ڈیٹا پر مبنی ہو۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ نوجوانوں کے لئے مصنوعی ذہانت میں تربیتی ماڈیول فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے دنیا کے بڑے سوشل نیٹ ورکس موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ملک ہے، 2022ءکے سیلاب کے بعد پسماندہ علاقوں اور لوگوں کو اے آئی ماڈیولز کے استعمال سے مدد فراہم کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں مصنوعی ذہانت ہمیں ترقی میں مدد فراہم کر رہی ہے، وہاں ہمیں مس انفارمیشن کے انسداد کے لئے عالمی معاہدوں پر توجہ مرکوز کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے ایک فریم ورک کی ضرورت ہوگی تاکہ اس طرح کے معاہدوں کو ایک دستاویزی شکل دی جا سکے جس پر ہم اتفاق کر سکیں۔ وفاقی وزیر نے صحت، تعلیم، زراعت، مالیاتی اور سماجی شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے مثبت استعمال کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اے آئی پالیسی کو دنیا کے بہترین اخلاقی معیارات کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے پوری طرح پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم میں زیادہ تر رہنماﺅں نے مس انفارمیشن کو بڑا خطرہ قرار دیا ہے، ان رہنماﺅں نے جوہری جنگ اور موسمیاتی تبدیلی کو خطرہ نہیں کہا جو یقیناً بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ مس انفارمیشن افراتفری اور انتشار پھیلانے کا کام کرتی ہے، مس انفارمیشن کے تدارک کے لئے مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دی جا سکتی ہے، اس کے لئے عالمی فورم کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کو مس انفارمیشن کا چیلنج درپیش ہے۔ مس انفارمیشن عدم استحکام، معاشی عدم استحکام اور سلامتی کے بحران کو جنم دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مس انفارمیشن کے تدارک کے لئے ہمیں ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنا ہوگا جس سے تمام ریاستیں متفق ہوں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ جب ہم سوشل میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو ایسا کیوں ہے کہ غزہ کا مسئلہ، مسئلہ کشمیر اور لبنان کے لوگوں کی حالت زار کو سوشل میڈیا پر سینسر کیا جاتا ہے؟ یہاں اے آئی کا منفی استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری رہنما برہان وانی کا سوشل میڈیا پر نام نہیں لیا جا سکتا، ان کی تصاویر پوسٹ نہیں کی جا سکتیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اے آئی کے بہتر اور مثبت استعمال کے لئے ایک ایسے ریگولیٹری فریم ورک کی ضرورت ہے جو اخلاقی معیارات کو برقرار رکھ سکے اور سب کو قابل قبول ہو۔ وفاقی وزیر نے ڈیجیٹل ڈائیلاگ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل ڈائیلاگ پاکستان اے آئی اور لارج لینگوئج ماڈلز کا مجموعہ ہے، اس ڈائیلاگ کے ذریعے ہم نہ صرف رائے عامہ کو ہم آہنگ کرتے ہیں بلکہ شہریوں کی ضروریات کا اندازہ لگانے کے بھی قابل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سکلز ڈویلپمنٹ کے شعبہ میں سرمایہ کاری کو بڑھا رہے ہیں، آئندہ سال ہمارا ہدف 10 لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کے شعبے میں تربیت فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی کے شعبہ میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ایگری ٹیک، فن ٹیک، ہیلتھ ٹیک سمیت دیگر شعبوں میں ترقی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شفافیت اور ضابطہ اخلاق کو یقینی بنانے کے لئے ایسا فریم ورک ضروری ہے جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم پہلے ہی اپنی قومی اے آئی پالیسی کو نافذ کرنے کی طرف بڑھ چکے ہیں، ہم فبرائزیشن کی طرف جا رہے ہیں اور ہم اے آئی کاز کے لئے پوری طرح پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اے آئی کے ذریعے زرعی شعبہ میں ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کے ذریعے فصلوں کی زیادہ پیداوار کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان چاول برآمد کرنے والا ملک ہے، زراعت کو ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی میں تکنیکی ترقی کے ذریعے زراعت کی اعلیٰ پیداوار، تعلیم اور سکلز ڈویلپمنٹ، ملک کے پسماندہ علاقوں میں فاصلاتی تعلیم کا نظام لانا چاہتے ہیں جہاں ملک کی بہترین یونیورسٹیوں تک رسائی نہ رکھنے والے طلباءاے آئی ٹولز کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بنا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پولیو کی صورتحال میں بہتری کے لئے بھی اے آئی کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہیپاٹائٹس اور کچھ ایسی بیماریاں ہیں جن کا علاج تو موجود ہے لیکن وہ اس کے باوجود پھیل رہی ہیں۔ اس لئے پاکستان کے ہیلتھ ٹیک سیکٹر میں اے آئی کا استعمال ضروری ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اے آئی کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصان دہ اثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس کے مطابق اپنے انتظامات کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فن ٹیک اور مالیاتی شعبے میں بھی اے آئی کے مثبت استعمال سے ہم معاشی رجحانات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایگری ٹیک، ایجوکیشن ٹیک، ہیلتھ ٹیک اور فن ٹیک ایک مجموعہ ہیں جو ہمیں آگے لے جا سکتا ہے اور ہمارے مسائل کو ختم کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں درست پالیسیاں بنانے اور اپنے لوگوں اور اپنے ملک کے لئے ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔