اسلام آباد: سپریم کورٹ نے انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی جبکہ پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ سے بھی اپنی درخواست واپس لے لی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بہت مہربانی بہت شکریہ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ مجھے ہدایات ملی ہیں کہ درخواست واپس لے لی جائے، آپ کے 13 جنوری کے فیصلے سے ہماری 230 سے زائد نشستیں چھن گئیں، ہم آپ کی عدالت میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے آئے تھے، 13جنوری کی رات 11:30 پر ایسا فیصلہ سنایا گیا جس سے پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر گیا، ہم اب کیا توقع کریں کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی، آپ کے پاس آئین کے آرٹیکل187 کے تحت اختیار ہیں، آپ احکامات دے سکتے ہیں، ہم آپ کی عدالت میں یہ کیس نہیں لڑنا چاہتے، پی ٹی آئی کے امیدواروں میں سے کسی کو ڈونگا اور کسی کو گلاس دے دیا گیا۔
ہمارا فیصلہ ماننا ہے مانیں، نہیں ماننا تو آپ کی مرضی: چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارا فیصلہ ماننا ہے مانیں، نہیں ماننا تو آپ کی مرضی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ نے تو پی ٹی آئی کی فیلڈ ہی چھین لی، الیکشن کمیشن صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، ایک جماعت کو پارلیمان سے باہر کر کے پابندی لگائی جا رہی ہے، پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد انتخابات لڑیں گے اور کنفیوژن کا شکار ہوں گے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل لطیف کھوسہ سوال کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے انتخابات شفاف نہیں ہیں؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ بالکل انتخابات غیرمنصفانہ ہیں، ہم نے عدلیہ کے لیے خون دیا، قربانیاں دیں۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ ہمیں بھی بولنے کی اجازت دیں، دوسرے کیس کی بات اس کیس میں کرنا مناسب نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے جس جماعت سے اتحاد کیا اس کے سربراہ کو اٹھا لیا اور پریس کانفرنس کروائی گئی، اتحاد کرنے پر بھی اب ہم پر مقدمات بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، آپ کے فیصلے سے ہمیں پارلیمانی سیاست سے نکال دیا گیا، آپ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے لوگ آزاد انتخابات لڑیں گے، عدالت کے فیصلے سے جمہوریت تباہ ہو جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار کہا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کا ہونا دکھا دیں، آپ کو فیصلہ پسند نہیں تو کچھ نہیں کر سکتے، لیول پلیئنگ فیلڈ پر ہم نے حکم جاری کیا تھا، عدالت حکم دے سکتی ہے حکومت نہیں بن سکتی، بیرسٹر گوہر کے معاملے پر پولیس اہلکار معطل ہوگئے، ہمارا کام انتخابات قانون کے مطابق کروانا ہے، الیکشن کا معاملہ ہم نے اٹھایا، پی ٹی آئی کی درخواست پر 12 دن میں تاریخ مقرر کی، الیکشن کمیشن کہتا رہا پارٹی انتخابات کرائیں لیکن نہیں کرائے گئے، کسی اور سیاسی جماعت پر اعتراض ہے تو درخواست لے آئیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ آپ بتا رہے تھے کہ آپ نے کسی جماعت سے اتحاد کیا ہے؟ وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں وہی تو بتا رہا ہوں کہ ہمیں اتحاد بھی نہیں کرنے دیا گیا۔
الیکشن کمیشن ایک پارٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے: جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن فیئر نہیں ہے، الیکشن کمیشن ایک پارٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے، الیکشن کمیشن کو دوسری جماعتیں نظر نہیں آتیں؟
قانون بناتے نہیں عمل کرواتے، آپ کو قانون نہیں پسند تو بدل دیں: جسٹس قاضی فائز
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے الیکشن کا معاملہ اٹھا، ہم نے تاریخ دلوائی، کیا آپ تاریخ دلوا سکے تھے؟ قانون ہم نہیں بناتے، قانون پر عمل کرواتے ہیں، آپ کو قانون نہیں پسند تو بدل دیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اے این پی کو الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان واپس دیا، پی ٹی آئی کو کیوں نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کل پتہ چلا ہے کہ اے این پی کے آئین کے مطابق ان کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کا ابھی وقت موجود تھا، اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے عوامی نیشنل پارٹی کو نشان واپس لوٹایا۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لطیف کھوسہ صاحب یہ درست طریقہ کار نہیں ہے، آپ سینئر وکیل ہیں، آپ پاکستان کے سارے ادارے تباہ کر رہے ہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
پشاور ہائیکورٹ سے بھی درخواست واپس لے لی
سپریم کورٹ کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کیس پشاور ہائی کورٹ سے بھی واپس لے لیا۔
پی ٹی آئی نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کیس دائر کیا تھا۔