اسلام آباغیر قانونی سگریٹ تجارت کا حجم پچھلے ایک دہائی کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا۔ جبکہ پچھلے دس سالوں میں پہلی بار غیر قانونی سگریٹ کا حجم قانونی سیکٹر سے زیادہ ہو چکا ہے۔ اس بات کا اظہار پاکستان تمباکو کمپنی کے سینئر نمائندگان نے گزشتہ روز ایک بریفنگ کے دوران نا مناسب مالی اصلاحات اور ملک بھر میں بڑھتی ہوئی غیر قانونی سگریٹ تجارت کی وجہ سے کاروبار کی پائیداری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کیا۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ادارہ برائے شماریات کی جانب سے حال ہی میں جاری کیے جانے والے لارج سکیل مینوفیکچرنگ انڈیکس کے اعدادو شمار میں قانونی تمباکو سیکٹر میں نہایت اہم اور تشویشناک رجحانات کی نشاندہی کی ہے۔
تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق قانونی سیکٹر کی پیداوار جولائی2023سے نومبر2023کے دوران مجموعی لارج سکیل مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ کے مقابلے میں 40گنا سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے، تاہم سگریٹ کی عمومی کھپت برقرار ہے۔ یہ رجحان ان پالیسی فیصلوں کی نشاندہی کرتا ہے جنہوں نے قانونی تمباکو سیکٹر کو شدید متاثر کیا ہے۔ غیر متوازن مالی پالیسیوں اور بڑھتی ہوئ غیر قانونی سگریٹ تجارت سے صرف قانونی سگریٹ سیکٹر میں کمی واقع ہوی ہے جبکہ سگریٹ نوشی کی شرح میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوی۔
بریفنگ میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے ابھی تک پاکستان اور آزاد کشمیر کی مقامی سگریٹ فیکٹریوں میں ٹریک اینڈ ٹریس نظام کا نافذ نہیں کی جا سکا ہے۔ جبکہ اس وقت مارکٹ میں جعلی ٹیکس سٹیمپ والے سگریٹ پیکٹ بھی بک رہے ہیں ۔ پی ٹی سی کے سینئر بزنس ڈویلپمنٹ مینجر قاسم طارق کے مطابق ملک کے بڑے شہروں بشمول کراچی، لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں اس وقت 850ملین جعلی سگریٹ فروخت ہو رہے ہیں جو 42.5ملین سے زائد ڈبیاں بنتی ہیں۔ ان ڈبیوں پر جعلی ٹیکس سٹیمپیں لگی ہوئی ہیں، جس سے ملکی خزانے کو سالانہ 5.7ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے۔
جعلی ٹیکس سٹیمپ کی تیاری، سپلائی کے خلاف فوری طور پر کریک ڈاؤن شروع ہونا چاہیے۔
ملک بھر میں جعلی ٹیکس سٹیمپ والے جعلی سگریٹوں نے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کی افادیت پر سوالات کو جنم دیا ہے۔
پی ٹی سی کے نمائندگان نے میڈیا حلقوں میں ایف بی آر کے میں کمی کے حوالے سے گردش کرنے والی ایک این جی او کی رپورٹ کو گمراہ کن اور حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کے پیچھے عوامل اور اس کے عزائم پر شدید سوالات اٹھائے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں غیر قانونی تجارت کا حجم 10فیصد سے کم ہے۔ جبکہ ایف بی آر بذات خود بتا چکا ہے کہ ملک بھر میں اسی عرصے کے دوران غیر قانونی تجارت کا حجم36.2فیصد سے زیادہ تھا۔
دوسرا یہ کہ اس رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا کہ اس عرصہ میں حکومتی محصولات میں کمی ایکسائز سٹرکچر میں مالیاتی تبدیلیوں کی بنا پر ہوئی تاہم رپورٹ می پورے حقائق قصداً پوشیدہ رکھے گئے اور مکمل طور پر غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔
این جی اوز کی ان رپورٹوں میں غیر قانونی تجارت کے حجم کو مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کم دکھایا جا رہا ہے۔
قاسم طارق نے مزید بتایا کہ غیر قانونی سگریٹ کے کاروبار کے خلاف تمام اداروں کو ایک جامع حکمت عملی کی تشکیل، ضروری مالیاتی اصلاحات اور ویلیو چین میں غیر قانونی تجارت کے خلاف قوانین کے سخت نفاذ کرنا چاہے۔ بلخصوص پرچون کی سطح پر غیر قانونی سگریٹ فروخت کے خلاف سخت کاروائی سے نہ صرف ملک بھر سے سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کا خاتمہ ہو گا بلکہ حکومتی محصولات میں بھی نمایاں اضافہ ہو گا۔