اسلام آباد:سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی کی جانب سے نوٹسز بھجوانے سے متعلق کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی ، اٹارنی جنرل نے صحافیوں کیخلاف نوٹسز پر کارروائی انتخابات تک مؤخر کرنے کی یقین دہانی کروادی ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے، پریس ایسوسی ایشن کے وکیل جہانگیر جدون نے گذشتہ روز کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے جہانگیر جدون ایڈووکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ذمہ داری آپ پر بھی ہے، ہم پٹیشن اٹھاتے ہیں، صحافی پیچھے ہٹ جاتے ہیں، آپ نگران وزیر بھی ہیں؟ آپ وزیر ہیں ملک چلا رہے ہیں، یا آپ نہیں چل رہے؟ آپ ڈرپوک ہیں؟
جہانگیر جدون نے کہا کہ عامر میر کیس میں عدالتی احکامات پر عمل ہوا یا نہیں حکومت سے پوچھا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کس حکومت سے پوچھے ؟ جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت سے پوچھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر آرڈر بھی آپ کے خلاف پاس ہوگا، آپ کے مؤکل کیا ایک وزیر ہیں ؟ جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ جی وہ وزیر ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وہ بطور وزیر وہ بے یارومددگار ہیں؟ جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ جی وہ ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ پھر وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے ؟، جواب میں جہانگیر نے کہا کہ سب کو پتا ہے۔
اِس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایسی باتیں مت کریں، یہ کورٹ ہے اکھاڑا نہیں۔
کل ہم نے محتاط رہتے ہوئے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا:چیف جسٹس
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا صحافیوں نے کوئی نئی درخواست دائر کی؟ جس پر صحافی عقیل افضل نے کہا کہ ہمیں ابھی تک فہرست ہی نہیں ملی کن صحافیوں کے خلاف کارروائی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب! کل ہم نے محتاط رہتے ہوئے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا، کوئی بندہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں، ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو دیکھ رہے ہیں، اس قانون سے متعلق کیس براہ راست نشر ہوا تھا، پورے ملک نے دیکھا۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم توقع رکھتے تھے آج صحافی کوئی سی ایم اے فائل کرتے، ہمیں کوئی کاغذ تو دِکھائیں ہم اس کیس میں آگے کیسے بڑھیں۔
صحافیوں کی جانب سے متفرق درخواست دائر نہ ہونے پر چیف جسٹس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک تحریری طور پر ہمارے سامنے کچھ نہیں آئے گا ہم آرڈر کیسے جاری کریں، اب سپریم کورٹ میں 3 رکنی کمیٹی ہے وہ طے کرتی ہے جو درخواست آنے کے بعد طے کرے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت ایسے سوموٹو لے تو بھی صحافی اعتراض کرینگے، مزید کیس کیسے آگے چلائیں یہ بتا دیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن ہمارے سامنے ہے نہ ہی کسی نوٹس کی کاپی، لسٹ ملی یا نہیں جنہیں نوٹسز ملے ہیں ان کے تو جمع کرائے جا سکتے تھے۔
صدر سپریم کورٹ بارنے کہاکہ میں بھی سمجھ رہا تھا کہ کوئی درخواست آئے گی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا کوئی ایف آئی اے میں پیش ہوا ہے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی کو آج تک کیلئے روکا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی تحریری مواد کے بغیر اٹارنی جنرل کو درخواست کر سکتے ہیں حکم نہیں دے سکتے، جس پر صدر پریس ایسوسی ایشن نے کہا کہ دس منٹ کا وقت دیں متفرق درخواست دائر کر دینگے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ متفرق نہیں آئینی درخواست ہونی چاہیے جو معاملہ کمیٹی میں جانا ہے، مطیع اللہ جان کاکہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو کہنا ہے لکھ کر دیں زبانی بات نہیں سنیں گے ، مطیع اللہ جان نے کہا کہ اداروں کو جلدی کس بات کی ہے الیکشن کے بعد ہمیں بلا لیں۔
حیدر وحید ایڈووکیٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو ہدایت دی جائے کہ سٹیک ہولڈرز سے مل کر سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق بنائے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت ایسا حکم جاری کر سکتی ہے؟
ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کوئی قانون نہیں ہے: جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہے، جو قانون ہے وہ صرف فوجداری کارروائی کے لیے ہے، یوٹیوب پر ہتک عزت قانون تو لاگو ہوتا ہے لیکن کوئی ریگولیٹری قانون نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ عدالت قانون کی تشریح کر سکتی ہے، جب قانون ہی نہیں تو کیا کریں؟ عدالت صرف سٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بیٹھنے کی درخواست کر سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے کل عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی، باضابطہ درخواست تو آئے، ایسے حکم کیسے جاری کر سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا صحافیوں کیخلاف نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم
صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن کے باوجود نوٹسز واپس نہیں ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں تنقید سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو یقین دہانی کرائی تھی اس پر قائم ہوں، نوٹس واپس کرنے کا طریقہ کار ہے، صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ یوٹیوب پر جس کا جو دل چاہتا ہے بول دیتا ہے۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ تنقید کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن من گھڑت الزامات کی اجازت نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سچ انسان کو آزاد کر دیتا ہے، سچ تو ہر طرف سے ہی بالکل غائب ہوچکا ہے، صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ کل عدالتی سماعت کے بعد تاثر ملا جیسے نوٹسز واپس ہوگئے ہیں۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ آج بھی کوئی نہیں مان رہا کہ غلط خبر چلی اور نوٹس واپس نہیں ہوئے۔
صحافیوں پربھی قانون لاگو ہوتا ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ارشد شریف کیس کی سماعت 5 رکنی بنچ کررہا ہے، اس کیس میں ارشد شریف کی والدہ اور بیوہ کے وکیل موجود ہیں۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ جن کیسز میں وکیل پیش ہو رہے ہو وہاں دوسرے کا بات کرنا مناسب نہیں، اگر انہوں نے کیس جلدی لگانا ہوگا تو درخواست دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم قانون کے تابع ہیں، صحافیوں پر بھی قانون لاگو ہوتا ہے، بہت سے لوگوں کو نوٹسز آئے جوکہ جانے سے انکاری نہیں ہوئے۔
صدر پی ایف یو جے افضل بٹ عدالت میں پیش ہوئے ، افضل بٹ نے کہا کہ ایف آئی اے نے تنقید اور ٹرولنگ کو مکس کر دیا ہے، میڈیا کو ٹارگٹ کرنے کیلئے یہ سب کیا جا رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے نوٹس کی شکل ہی نہیں دیکھی تو کیا حکم جاری کریں، ہر آدمی وہی بات کر رہا ہے لیکن نوٹسز ہمیں دکھا رہے ہیں نہ درخواست دی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ لوگ شاید صحافیوں کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں، صحافیوں کو کوڑے بھی لگے ، جیل بھی گئے آپ نوٹسز پر اعتراض کر رہے ہیں، ہمیں بھی نوٹس ہوئے تھے ہم نے کوئی حکم امتناع نہیں لیا تھا،جس پر افضل بٹ نے جواب دیا کہ آپ کو نوٹس ہوا تو ہم اس کےخلاف درخواست گزار تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صحافی جھوٹ لکھ سکتا ہے؟ صدر پی ایف یو جے نے کہا کہ صحافی کیلئے جھوٹ لکھنا جرم ہے۔
سپریم کورٹ کی پی ایف یو جے کو مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت
عدالت نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوادیا،حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق وہ ابصار عالم پر حملے کا ذکر کرنا بھول گئے تھے، عدالت نے ابصار عالم پر حملے کی تحقیقاتی رپورٹ بھی مانگ لی۔
حکم نامے میں سپریم کورٹ نے پی ایف یو جے کو مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت دے دی، پریس ایسوسی ایشن میڈیا کی آزادی اور موجودہ حالات پر درخواست دائر کرنا چاہتی ہے، عدالت نے پریس ایسوسی ایشن کی درخواست ملنے پر رجسٹرار آفس کو فوری نمبر لگانے کی ہدایت کردی۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ رجسٹرار آفس درخواست ملتے ہی ججز کمیٹی کے سامنے پیش کرے۔
صحافیوں کوجاری نوٹسز پرکارروائی انتخابات تک مؤخر،اٹارنی جنرل کی یقین دہانی
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروائی کہ انتخابات تک صحافیوں کو جاری نوٹسز پر کارروائی مؤخر کی جائے گی اور الیکشن کے بعد دوبارہ نوٹسز جاری کئے جائیں گے۔
دریں اثنا عدالت نے کیس کی مزید سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو بھجوائے گئے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے صحافیوں پر تشدد کے خلاف 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کی تھی، عدالت نے اٹارنی جنرل اور ڈی جی ایف آئی اے کو صحافیوں کے ساتھ ملاقات کی ہدایت بھی کی تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریس ایسوسی آف سپریم کورٹ (پاس) اور ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے ایک اعلامیے کا نوٹس لیا تھا جس میں دونوں تنظیموں نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی طرف سے درجنوں صحافیوں کو نوٹسز بھجوانے پر اظہار تشویش کیا گیا تھا۔