فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درامد کر لیا جاتا تو 9 مئی کے واقعات نہ ہوتے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے جس نے کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان سے سوال کیا کہ اس کیس کو آخر میں سنیں گے،ا لیکشن کمیشن نے رپورٹ جمع کرائی آپ نے وہ دیکھی ہے۔ جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی الیکشن کمیشن کی رپورٹ نہیں دیکھی جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آب اس وقت رپورٹ کا جائزہ لیں، اس کیس کو آخر میں سنتے ہیں۔
اس کے بعد فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا گیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ بینچ 2 میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس ہے میں نے ساڑھے 11 بجے وہاں پیش ہونا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کوہدایت کی کہ پھر آپ وہاں سے فارغ ہو جائیں تو ہمیں بتا دیں پھر کیس سن لیں گے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالتِ عظمیٰ میں دوباہ پیش ہوئے جہاں انہوں نے اٹارنی جنرل عدالت میں فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پڑھ کر سنائی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن نے کوئی فائنڈنگ نہیں دی، ہمارا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟ کمیشن کوئی فائنڈنگ تو دے ہی نہیں رہا، 15 نومبر 2023ء کا ہمارا آرڈر بھی پڑھیں، آپ 2019ء کا آرڈر پڑھ رہے ہیں، 2023ء والا آرڈر پڑھیں کہ آگے بھی پڑھیں پاکستان بنتا کیسے اور تباہ کیسے کیا جاتا ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 15 نومبر 2023ء کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ سب 2007ء میں شروع ہوا اور ہم 2024ء میں پہنچ گئے۔