سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے فوج سے رابطہ ترک کرنا پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ رابطے ہوتے تو اتنی غلط فہمیاں نہ بڑھتیں، سوچ نہیں سکتے تھے کہ بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔
وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت نہیں چاہتی کہ عمران خان جیل سے باہر آجائیں کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ عمران خان باہر آئیں گے تو اسد عمر، عمران اسماعیل، فواد چوہدری اور علی زیدی دوبارہ قیادت سنبھال لیں گے اور پارٹی میں موجودہ قیادت کا عمل دخل ختم ہوجائے گا۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پیر پگاڑا، شیخ رشید، مولانا فضل الرحمان، پرویز الہیٰ سب ہی اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ پالیسی کے ساتھ نہیں ہیں، عمران خان اور فوج کے درمیان لڑائی نہیں ہے البتہ تلخیاں پائی جاتی ہیں جنہیں دونوں جانب سے ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر بات چیت سے دور کیا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے انتخابی ٹکٹ نہ دینے کے سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ انہیں الیکشن ہی لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی تو ٹکٹ نہ ملنے کا عمران خان سے شکوہ نہیں بنتا، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) میں شمولیت کے لیے اُنہیں زبردستی اسلام آباد سے لاہور لے جایا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارٹی اور سیاست سے وقتی طور پر علیحدگی کا اعلان عمران خان کے مشورے سے کیا تھا تاکہ ذہنی اذیت اور تشدد سے بچا جا سکے، پہلی بار گرفتاری سے رہائی پر عمران خان نے انہیں فون کیا اور پوچھا کہ کیا تم پر تشدد ہوا تو میں نے بتایا کہ کافی تشدد ہوا ہے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ اس کے بعد انہوں نے پارٹی کے ایک پیغام رساں کے ذریعے عمران خان سے پوچھا کہ کیا کیا جائے؟ تو عمران خان نے کہا کہ اتنا تشدد برداشت نہیں کیا جا سکتا تم پارٹی سے کچھ وقت کے لیے علیحدہ ہو جاؤ۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ فوج سے رابطے منقطع کرنا عمران خان کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کے باعث حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں میں اضافہ ہوا۔ اگر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور عمران خان فوج سے رابطے رکھتے تو شاید غلط فہمیاں اتنی نہ بڑھتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کا فون آیا جنہوں نے کہا کہ اگر میں اور تم بھی فوج کے خلاف ہیں تو پھر اس ملک میں فوج کا حامی کون ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ فوج ملک کا ایک لازمی جز ہے اور فوج کے بغیر ملک نہیں چل سکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایک سماجی تبدیلی آ چکی ہے اور آج کے بدلے ہوئے حالات میں فوج کو سیاست میں اپنا کردار محدود کرنا ہوگا۔