قومی

مجوزہ آئینی ترامیم کی تفصیلات سامنے آگئیں

۔

 آئین کے آرٹیکل 9 اے میں ایک لائن کا اضافہ، ’صاف ماحول ہر فرد کا بنیادی حق‘۔

 آرٹیکل 17 میں ترمیم، لفظ سپریم کورٹ کو وفاقی آئینی عدالت سے تبدیل کردیا جائے۔

 حکومت پاکستان کے خلاف کام کرنے والی جماعت کا معاملہ سپریم کورٹ کی بجائے وفاقی آئینی عدالت کو بھیجے گی۔

 آرٹیکل 48: وزیراعظم، کابینہ کی صدر کو ایڈوئز کسی عدالت اور ٹربیونل میں چیلنج نہیں ہو سکے گی۔

وضاحت: آرٹیکل 48 میں سے ایڈوائز میں سے وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کو نکال دیا گیا ہے۔

: آرٹیکل 63 اے میں تین ترامیم تجویز، ووٹ شمار ہوگا، ڈی سیٹ کرنے کا معاملہ وفاقی آئینی عدالت میں جائے گا۔

آرٹیکل 68: وفاقی آئینی عدالت کے جج کے خلاف پارلیمان میں بات نہیں ہو سکتی۔

 آرٹیکل 78: آئینی عدالت میں جمع ہونے والی رقم وفاقی حکومت کو جائے گی۔

 آرٹیکل 81: تین ترامیم شامل، لفظ وفاقی آئینی عدالت شامل کیا جائے۔

آرٹیکل 100: اٹارنی جنرل پاکستان وہ شخص تعینات ہوگا جو وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو۔

آرٹیکل 111: ایڈوائزرز صوبائی اسمبلیوں اور کمیٹیوں کے اجلاس میں شریک ہوسکیں گے۔

آرٹیکل 114: صوبائی اسمبلی میں وفاقی آئینی عدالت کے ججز پر بات نہیں ہو سکے گی۔

 آرٹیکل 165اے: انکم ٹیکس شق میں وفاقی آئینی عدالت کے الفاظ کا اضافہ ہوگا۔

آرٹیکل 175 اے: آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی اور  ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ شامل۔

 جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی، وفاقی آئینی عدالت کا سربراہ چیئرپرسن ہو گا۔

 جوڈیشل کمیشن میں چیئرمین کے علاوہ 12 ارکان ہوں گے۔

 جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت کے دو ججز، چیف جسٹس سپریم کورٹ، سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔

 وزیر قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ جوڈیشل کمیشن کا حصہ ہو گا۔

قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو، سینیٹ سے حکومت اور اپوزیشن کے دو نمائندے شامل ہوں گے۔

 سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ کمیشن کے چیئرپرسن ہوں گے۔

آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی کی سفارش اسپیکر کی نامزد کردہ 8 رکنی قومی اسمبلی کی کمیٹی کرے گی۔

 پہلی بار آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی صدر چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کی مشاورت سے کریں گے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تعیناتی طریقہ کار میں تبدیلی

چیف جسٹس سپریم کورٹ کا نام کمیٹی تین سینئر ترین ججز میں سے کرے گی۔

 ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی کا کمیشن سالانہ جائزہ لے گا۔

 اگر کسی جج کر کارکردگی تسلی بخش نہیں تو وقت دیا جائے گا ورنہ کمیشن سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ بھیجے گی۔

 آرٹیکل 175 بی میں ترمیم: چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کی تعیناتی اور دائرہ کار

 آرٹیکل 176 میں ترمیم: چیف جسٹس پاکستان کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کہا جائے گا۔

آرٹیکل 176اے کی شمولیت: دوہری شہریت کا مالک وفاقی آئینی عدالت کا جج نہیں ہو سکتا۔

آرٹیکل 177: سپریم کورٹ ججز کی اہلیت سے متعلق ہے۔

 آرٹیکل 177 اے: چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کے حلف سے متعلق ہے۔

 آرٹیکل 178اے: وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی۔

 آرٹیکل 179: چیف جسٹس سپریم کورٹ کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہو گی۔

 179 اے، 179 بی: وفاقی آئینی عدالت کے جج کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ کا جج صدر مملکت عارضی طور پر تعینات کریں گے۔

 آرٹیکل 182اے کی شمولیت: وفاقی آئینی عدالت اسلام آباد میں ہو گی۔

 آرٹیکل 184: دو یا اس سے زیادہ حکومتوں کے درمیان تنازعہ وفاقی آئینی عدالت دیکھے گی۔

 مفاد عامہ کے معاملات پر تمام مقدمات وفاقی آئینی عدالت سنے گی۔

مفاد عامہ کے تمام مقدمات سپریم کورٹ سے وفاقی آئینی عدالت منتقل ہو جائیں گے۔

  184   اے کی شمولیت: ہائی کورٹس کے آئینی معاملات پر فیصلے وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج ہو سکیں گے۔

 آرٹیکل 185: ہائیکورٹس کی اپیلیں سپریم کورٹ سنے گی، آئینی سوالات وفاقی آئینی عدالت سنے گی۔

 آرٹیکل 186: صدرارتی ریفرنس پر سماعت آئینی عدالت کرے گی۔

آرٹیکل 186 اے: سپریم کورٹ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی مقدمہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائیکورٹ کو بھجوا سکے گی۔

وفاقی آئینی عدالت کسی بھی ہائی کورٹ کے سامنے معاملے کو کسی دوسری ہائیکورٹ یا خود کو منتقل کر سکتی ہے۔

 آرٹیکل 187 میں ترمیم: وفاقی آئینی عدالت کسی بھی متعلقہ شخص کو طلب کر سکتی ہے۔

آرٹیکل 188: وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کا اختیار رکھیں گی۔

 آرٹیکل 189: وفاقی آئینی عدالت کا کسی بھی قانونی اصول حکم نامہ سپریم کورٹ سمیت ساری عدالتوں پر بائنڈنگ ہو گا۔

سپریم کورٹ کا قانونی اصول پر کوئی بھِی فیصلہ وفاقی آئینی عدالت پر بائنڈنگ نہیں ہو گا۔

 آرٹیکل 190: تمام جوڈیشل اتھارٹیز وفاقی آئینی عدالت کی مدد کی پابند ہوں گی۔

آرِٹیکل 191: سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت اپنے قواعد و ضوابط بنائیں گے۔

 آرٹیکل 192: ہائی کورٹس کے ججز کی تعداد کا تعین ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہو گا۔

 آرٹیکل 193: ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلیاں

دوہری شہریت رکھنے والا ہائی کورٹ کا جج نہیں ہو سکتا۔

ہائیکورٹ جج کے لیے ہائیکورٹ وکالت کا کم از کم 15 سال کا تجربہ، 15 سال جوڈیشل آفس کا تجربہ ضروری قرار

 آرٹیکل 199: ہائی کورٹ از خود آرڈر جاری نہیں کر سکے گی۔

 قومی سلامتی سے متعلقہ کسی شخص پر ہائی کورٹ حکم جاری نہیں کر سکے گی۔

آرٹیکل 200: صدر مملکت جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر کسی جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر کر سکیں گے۔

 آرٹیکل 202: ہائیکورٹ قواعد و ضوابط ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت بنائے جا سکیں گے۔

 آرٹیکل 204: توہین عدالت میں وفاقی آئینی عدالت کو بھی شامل کرنے کی تجویز

 آرٹیکل 205: وفاقی آئینی عدالت کی تنخواہیں مقرر کرنے کو شامل کیا گیا ہے۔

 آرٹیکل 206: وفاقی آئینی عدالت کے جج کے استعفے کو شامل کیا گیا ہے۔

آرٹیکل 207: جج آفس آف پرافٹ نہیں لے سکتا، وفاقی آئینی عدالت کو شامل کیا گیا ہے۔

 آرٹیکل 208: وفاقی آئینی عدالت کے افسران کی تعیناتیوں سے متعلق الفاظ کی شمولیت

آرٹیکل 209: سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل میں تبدیلیاں

 سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت، چیف جسٹس سپریم کورٹ، آئینی عدالت کا سینئر ترین جج، ہائی کورٹس کے دو سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔

 آرٹیکل 210: کسی شخص کو طلب کرنے کا کونسل کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کا اختیار ہو گا۔

 آرٹیکل 215: چیف الیکشن کمشنریا الیکشن کمیشن کا کوئی ممبر نئی تعیناتیوں تک عہدوں پر برقرار رہیں گے۔

 آرٹیکل 215 میں ون اے کا اضافہ: چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کا کوئی بھی رکن قومی اسمبلی اور سینیٹ کی اکثریتی قرار داد سے دوبارہ نئی ٹرم کے لیے تعینات ہو جائیں گے۔

 آرٹیکل 239: آئینی ترمیم کے خلاف کسی عدالت کا کوئی حکم نامہ موثر نہیں ہو گا۔

 آرٹیکل 243: مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتیوں، دوبارہ تعیناتیوں، ایکسٹیشن، مدت ملازمت پاک فوج کے قوانین کے مطابق ہوں گے اور انہیں دو تہائی اکثریت کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

 آرٹیکل 248: صدر، گورنرز کو آئین و قانون کے تحت قائم عدالتوں سے آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔

آرٹیکل 255: حلف سے متعلق وفاقی آئینی عدالت کے ججز کو شامل کیا گیا ہے۔

 آرٹیکل 259: صدارتی ایوارڈز میں سائنس و ٹیکنالوجی، ادویات، آرٹس اور پبلک سروس کا اضافہ

 آرٹیکل 260: وفاقی آئینی عدالت کے الفاظ کا اضافہ

 شیڈول تین میں اضافہ: حلف نامے میں وفاقی آئینی عدالت کا حلف شامل

شیڈول چار میں تبدیلی: کنٹونمنٹ ایریاز میں الفاظ لوکل ٹیکس، سیس، فیس، ٹول اور دیگر چارجز کو شامل کیا گیا ہے۔

شیڈول پانچ میں ترمیم: وفاقی آئینی عدالت کے الفاظ کا اضافہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button